Mufradat-ul-Quran - Al-Ahzaab : 60
لَئِنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا٤ۖۛۚ
لَئِنْ : اگر لَّمْ يَنْتَهِ : باز نہ آئے الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو فِيْ قُلُوْبِهِمْ : ان کے دلوں میں مَّرَضٌ : روگ وَّالْمُرْجِفُوْنَ : اور جھوٹی افواہیں اڑانے والے فِي : میں الْمَدِيْنَةِ : مدینہ لَنُغْرِيَنَّكَ : ہم ضرور تمہیں پیچے لگا دیں گے بِهِمْ : ان کے ثُمَّ : پھر لَا يُجَاوِرُوْنَكَ : تمہارے ہمسایہ نہ رہیں گے وہ فِيْهَآ : اس (شہر) میں اِلَّا : سوائے قَلِيْلًا : چند دن
اگر منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور جو مدینے (کے شہر) میں بری بری خبریں اڑایا کرتے ہیں (اپنے کردار) سے باز نہ آئیں گے تو ہم تم کو انکے پیچھے لگا دینگے پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن
لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِيْنَۃِ لَــنُغْرِيَنَّكَ بِہِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْہَآ اِلَّا قَلِيْلًا۝ 60ۚۖۛ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ونَيْفَقُ السَّرَاوِيلِ معروفٌ نا فقاء الیربوع ہے یعنی جنگلی چوہے کا بل جس کے دود ھا نے ہوں نافق الیر بوع ونفق جنگی چوہیا اپنے مل کے دہانے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گئی اور اسی سے نفاق ہے جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَالنَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ نیفق السراویل پا جامے کا نیفہ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ مرض الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان : الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] . والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة . نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة/ 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام : «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین . ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور/ 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة/ 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور/ 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة/ 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة/ 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔ رجف الرَّجْفُ : الاضطراب الشدید، يقال : رَجَفَتِ الأرض ورَجَفَ البحر، وبحر رَجَّافٌ. قال تعالی: يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ النازعات/ 6] ، يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل/ 14] ، فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ [ الأعراف/ 78] ، والإِرْجَافُ : إيقاع الرّجفة، إمّا بالفعل، وإمّا بالقول، قال تعالی: وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ ويقال : الْأَرَاجِيفُ ملاقیح الفتن . ( ر ج) الرجف ( ن ) اضطراب شدید کو کہتے ہیں اور رَجَفَتِ الأرض ورَجَفَ البحر کے معنی زمین یا سمندر میں زلزلہ آنا کے ہیں ۔ بحر رَجَّافٌ : متلاطم سمندر ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل/ 14] جب کہ زمین اور پہاڑ ہلنے لگیں گے ۔ يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ [ النازعات/ 6] جب کہ زمین لرز جائے گی فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ [ الأعراف/ 78] پس ان کو زلزلہ نے پالیا ۔ الارجاف ( افعال ) کوئی جھوٹی افواہ پھیلا کر یا کسی کام کے ذریعہ اضطراب پھیلانا کے ہیں قران میں ہے : ۔ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَة اور جو لوگ مدینے میں جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں ۔ مثل مشہور ہے الْأَرَاجِيفُ ملاقیح الفتن . کہ جھوٹی افوا ہیں فتنوں کی جڑ ہیں ۔ مدن المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] . ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ «5» ، وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا [ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ «1» ، والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ» «2» . والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة «3» ، فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔ جار الجار : من يقرب مسکنه منك، وهو من الأسماء المتضایفة، فإنّ الجار لا يكون جارا لغیره إلا وذلک الغیر جار له، قال تعالی: لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب/ 60] ، وقال تعالی: وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد/ 4] ( ج و ر ) الجار پڑسی ۔ ہمسایہ ہر وہ شخص جس کی سکونت گاہ دوسرے کے قرب میں ہو وہ اس کا جار کہلاتا ہے یہ ، ، اسماء متضا یفہ ، ، یعنی ان الفاظ سے ہے جو ایک دوسرے کے تقابل سے اپنے معنی دیتے ہیں قرآن میں ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب/ 60] وہ اس ( شہر ) میں عرصہ قلیل کے سوا تمہارے ہمسایہ بن کر نہیں رہ سکیں گے ۔ وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد/ 4] اور زمین ایک دوسرے سے متصل قطعات ہیں ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔
Top