Mufradat-ul-Quran - Faatir : 33
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا١ۚ وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ
جَنّٰتُ عَدْنٍ : باغات ہمیشگی کے يَّدْخُلُوْنَهَا : وہ ان میں داخل ہوں گے يُحَلَّوْنَ : وہ زیور پہنائے جائیں گے فِيْهَا : ان میں مِنْ : سے ۔ کا اَسَاوِرَ : کنگن (جمع) مِنْ : سے ذَهَبٍ : سونا وَّلُؤْلُؤًا ۚ : اور موتی وَلِبَاسُهُمْ : اور ان کا لباس فِيْهَا : اس میں حَرِيْرٌ : ریشم
(ان لوگوں کے لئے) بہشت جاودانی (ہیں) جن میں وہ داخل ہوں گے وہاں ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور ان کی پوشاک ریشمی ہوگی
جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَہَا يُحَلَّوْنَ فِيْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُــؤْلُــؤًا۝ 0 ۚ وَلِبَاسُہُمْ فِيْہَا حَرِيْرٌ۝ 33 جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ عدن قال تعالی: جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] ، أي : استقرار وثبات، وعَدَنَ بمکان کذا : استقرّ ، ومنه المَعْدِنُ : لمستقرّ الجواهر، وقال عليه الصلاة والسلام : «المَعْدِنُ جُبَارٌ» «2» . ( ع د ن ) عدن ( ن ض ) کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹہر نے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ عدن بمکان کذا یعنی اس نے فلاں جگہ قیام کیا قرآن میں ہے : ۔ جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل/ 31] یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات ۔ اسی سے المعدن ( کان ) ہے کیونکہ کا ن بھی جواہرات کے ٹھہر نے اور پائے جانے کی جگہ ہوتی ہے حدیث میں ہے ۔ المعدن جبار کہ اگر کوئی شخص کان میں گر کر مرجائیں تو کان کن پر اس کی دیت نہیں ہے ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ حلی الحُلِيّ جمع الحَلْي، نحو : ثدي وثديّ ، قال تعالی: مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف/ 148] ، يقال : حَلِيَ يَحْلَى «4» ، قال اللہ تعالی: يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف/ 31] ، ( ح ل ی ) الحلی ( زیورات ) یہ حلی کی جمع ہے جیسے ثدی کی جمع ثدی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف/ 148] اپنے زیور کا ایک بچھڑا ( بنالیا ) وہ ایک جسم ( تھا ) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی حلی یحلٰی آراستہ ہونا اور حلی آراستہ کرنا ) قرآن میں ہے ۔ يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف/ 31] ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان/ 21] اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ اور حلیتہ کے معنی زیور کے ہیں ۔ ذهب ( سونا) الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ورجل ذَهِبٌ: رأى معدن الذّهب فدهش، وشیء مُذَهَّبٌ: جعل عليه الذّهب، وكميت مُذْهَبٌ: علت حمرته صفرة، كأنّ عليها ذهبا، ( ذ ھ ب ) الذھب ۔ سونا ۔ اسے ذھبتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجل ذھب ، جو کان کے اندر زیادہ سانا دیکھ کر ششدرہ جائے ۔ شیئ مذھب ( او مذھب ) زرا ندددہ طلاء کی ہوئی چیز ۔ کمیت مذھب ( اومذھب ) کمیت گھوڑا جس کی سرخی پر زردی غالب ہو ۔ گویا وہ سنہری رنگ کا ہے ۔ لؤلؤ قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ [ الرحمن/ 22] ، وقال : كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] جمعه : لَآلِئٌ ، وتَلَأْلَأَ الشیء : لَمَعَ لَمَعان اللّؤلؤ، وقیل : لا أفعل ذلک ما لَأْلَأَتِ الظِّبَاءُ بأذنابها «1» . ( ل ء ل ء ) اللؤ لوء ۔ جمع لاتی ۔ قرآن میں ہے : يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ [ الرحمن/ 22] دونوں دریاؤں سے ہوتی ۔۔۔ نکلتے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور/ 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور تلالالشئی کے معنی کسی چیز کے موتی کی طرح چمکنے کے ہیں مشہور محاورہ ہے ۔ لاافعل ذلک مالالات الظباء باذنابھا جب تک کہ آہو اپنے دم ہلاتے رہیں گے میں یہ کام نہیں کرونگا ۔ یعنی کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا ۔ لبس لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی: هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله : 402- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ، ( ل ب س ) لبس الثوب ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ لبس لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی: هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله : 402- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ، ( ل ب س ) لبس الثوب ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔ حَريرُ من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر/ 33] لحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر/ 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔
Top