Mufradat-ul-Quran - Az-Zumar : 32
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللّٰهِ وَ كَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآءَهٗ١ؕ اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِیْنَ
فَمَنْ : پس کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ : سے ۔ جس كَذَبَ : جھوٹ باندھا عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ وَكَذَّبَ : اور اس نے جھٹلایا بِالصِّدْقِ : سچائی کو اِذْ : جب جَآءَهٗ ۭ : وہ اس کے پاس آئے اَلَيْسَ : کیا نہیں فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں مَثْوًى : ٹھکانا لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
تو اس سے بڑھ کر ظالم کون جو خدا پر جھوٹ بولے اور سچی بات جب اس کے پاس پہنچ جائے تو اسے جھٹلائے کیا جہنم میں کافروں کا ٹھکانا نہیں ؟
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَي اللہِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَاۗءَہٗ۝ 0 ۭ اَلَيْسَ فِيْ جَہَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِيْنَ۝ 32 ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ ثوی الثَّوَاء : الإقامة مع الاستقرار، يقال : ثَوَى يَثْوِي ثَوَاءً ، قال عزّ وجلّ : وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] ، وقال : أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] ، قال اللہ تعالی: فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] ، ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقال : النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] ، وقیل : من أمّ مثواک «3» ؟ كناية عمّن نزل به ضيف، والثَّوِيَّة : مأوى الغنم، ( ث و ی ) الثواء ( ص) کے اصل معنی کسی جگہ پر مستقل طور پر اقامت کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ثویٰ یثویٰ ثواء وہ اقامت پذیر ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَما كُنْتَ ثاوِياً فِي أَهْلِ مَدْيَنَ [ القصص/ 45] اور نہ تم مدین والوں میں رہ رہے تھے ۔ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوىً لِلْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 60] کیا غرور والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے ۔ فَالنَّارُ مَثْوىً لَهُمْ [ فصلت/ 24] اور انکا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ ادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ خالِدِينَ فِيها فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72]( اب ) جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ ہمیشہ اسی میں رہو گے ۔ متکبروں کا کیسا برا ٹھکانا ہے ۔ النَّارُ مَثْواكُمْ [ الأنعام/ 128] خدا فرمائے گا ( اب ) تمہارا ٹھکانا درزخ ہے ۔ من ام مثواک ( کنایہ ) تمہارا میز بان کو ن ہے ۔ الثویۃ بھیڑ بکریوں کے باڑہ کو کہتے ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
Top