Mufradat-ul-Quran - Az-Zumar : 41
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ١ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَلِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَا١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ۠   ۧ
اِنَّآ اَنْزَلْنَا : بیشک ہم نے نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے بِالْحَقِّ ۚ : حق کے ساتھ فَمَنِ : پس جس اهْتَدٰى : ہدایت پائی فَلِنَفْسِهٖ ۚ : تو اپنی ذات کے لیے وَمَنْ : اور جو ضَلَّ : گمراہ ہوا فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَضِلُّ : وہ گمراہ ہوتا ہے عَلَيْهَا ۚ : اپنے لیے وَمَآ : اور نہیں اَنْتَ : آپ عَلَيْهِمْ : ان پر بِوَكِيْلٍ : نگہبان
ہم نے تم پر کتاب لوگوں (کی ہدایت) کے لئے سچائی کے ساتھ نازل کی ہے تو جو شخص ہدایت پاتا ہے تو اپنے (بھلے) کے لئے اور جو گمراہ ہوتا ہے اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور (اے پیغمبر ﷺ تم ان کے ذمہ دار نہیں ہو
اِنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَـقِّ۝ 0 ۚ فَمَنِ اہْتَدٰى فَلِنَفْسِہٖ۝ 0 ۚ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْہَا۝ 0 ۚ وَمَآ اَنْتَ عَلَيْہِمْ بِوَكِيْلٍ۝ 41ۧ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( نس ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ وكيل التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك، ( و ک ل) التوکیل کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء/ 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے
Top