Mufradat-ul-Quran - An-Nisaa : 107
وَ لَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًاۚۙ
وَلَا تُجَادِلْ : اور نہ جھگڑیں عَنِ : سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے ہیں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ِاِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا مَنْ كَانَ : جو ہو خَوَّانًا : خائن (دغا باز) اَثِيْمًا : گنہ گار
اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا کیونکہ خدا خائن اور مرتکب جرائم کو دوست نہیں رکھتا
وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِيْنَ يَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ۝ 0ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِــيْمًا۝ 107ۚۙ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( نس ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔
Top