Mufradat-ul-Quran - Al-Maaida : 31
فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِ١ؕ قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْ١ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ٤ۚۛۙ
فَبَعَثَ : پھر بھیجا اللّٰهُ : اللہ غُرَابًا : ایک کوا يَّبْحَثُ : کریدتا تھا فِي الْاَرْضِ : زمین میں لِيُرِيَهٗ : تاکہ اسے دکھائے كَيْفَ : کیسے يُوَارِيْ : وہ چھپائے سَوْءَةَ : لاش اَخِيْهِ : اپنا بھائی قَالَ : اس نے کہا يٰوَيْلَتٰٓى : ہائے افسوس مجھ پر اَعَجَزْتُ : مجھ سے نہ ہوسکا اَنْ اَكُوْنَ : کہ میں ہوجاؤں مِثْلَ : جیسا هٰذَا : اس۔ یہ الْغُرَابِ : کوا فَاُوَارِيَ : پھر چھپاؤں سَوْءَةَ : لاش اَخِيْ : اپنا بھائی فَاَصْبَحَ : پس وہ ہوگیا مِنَ : سے النّٰدِمِيْنَ : نادم ہونے والے
اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیونکر چھپائے۔ کہنے لگا اے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ اس کوّے کے برابر ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا پھر وہ پیشمان ہوا۔
فَبَعَثَ اللہُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَہٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَۃَ اَخِيْہِ۝ 0ۭ قَالَ يٰوَيْلَــتٰٓى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ ہٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِيَ سَوْءَۃَ اَخِيْ۝ 0ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِيْنَ۝ 31ۚۙۛ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر ( ب ع ث ) البعث اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا پس بعث دو قمخ پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے غرب الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] ، وقیل لكلّ متباعد : غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ. ( غ رب ) الغرب ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔ بحث البَحْثُ : الکشف والطلب، يقال : بَحَثْتُ عن الأمر، وبحثت کذا، قال اللہ تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] . وقیل : بَحِثَتِ الناقةُ الأرض برجلها في السیر : إذا شددت الوطء تشبيها بذلک . ( ب ح ث ( البحث ( ف) کے معنی کریدنا اور تلاش کرنا کے ہیں بحث عن الامر ویحثت کذا میں نے معاملہ کے متعلق کرید کی یا فلاں چیز کو تلاش کیا قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] . اب زیا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کرید لگا ۔ اور جب اونٹنی چلتے وقت زمین پر سخت پاؤں رکھے د کہ مٹی اڑاتی ہوئی چلی جائے ) تو ایسے موقعہ پر بحثت الناقہ فی السیر کہا جاتا ہے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ وری يقال : وَارَيْتُ كذا : إذا سترته . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وتَوَارَى: استتر . قال تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص/ 32] وروي أن النبيّ عليه الصلاة والسلام «كان إذا أراد غزوا وَرَّى بِغَيْرِهِ» ، وذلک إذا ستر خبرا وأظهر غيره . ( و ر ی ) واریت کذا ۔ کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا سر ڈھانکے ۔ تواری ( لازم ) چھپ جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص/ 32] یہانتک کہ ( افتاب ) پردے میں چھپ گیا ۔ وریالخبر کے معنی تو ریہ کرنے کے ہیں یعنی اصل بات کو چھپا کر اسے کسی اور طریقہ سے ظاہر کرنا اس طور پر کہ جھوٹ بھی نہ ہو ۔ اور اصل مقصد بھی ظاہر نہ ہونے پائے ) چناچہ حدیث میں ہے ۔ ( 143 ) «كان إذا أراد غزوا وَرَّى بِغَيْرِهِ»کہ آنحضرت ﷺ جب کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تو تو ریہ سے کام لیتے ۔ سوْأَةِ ( شرم گاه) وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ عجز عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه : مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] . ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔ ندم النَّدْمُ والنَّدَامَةُ : التَّحَسُّر من تغيُّر رأي في أمر فَائِتٍ. قال تعالی: فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة/ 31] وقال : عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون/ 40] وأصله من مُنَادَمَةِ الحزن له . والنَّدِيمُ والنَّدْمَانُ والْمُنَادِمُ يَتَقَارَبُ. قال بعضهم : المُنْدَامَةُ والمُدَاوَمَةُ يتقاربان . وقال بعضهم : الشَّرِيبَانِ سُمِّيَا نَدِيمَيْنِ لما يتعقّبُ أحوالَهما من النَّدَامَةِ علی فعليهما . ( ن د م ) الندم واندامۃ کے معنی فوت شدہ امر پر حسرت کھانیکے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ [ المائدة/ 31] پھر وہ پشیمان ہوا ۔ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نادِمِينَ [ المؤمنون/ 40] تھوڑے ہی عرصے میں پشیمان ہو کر رہ جائنیگے ۔ اس کے اصل معنی حزن کا ندیم جا نیکے ہیں اور ندیم ندمان اور منادم تینوں قریب المعنی ہیں بعض نے کہا ہے کہ مند نۃ اور مداومۃ دونوں قریب المعنی میں ۔ اور بقول بعض اہم پیالہ ( شراب نوش ) کو ندیمان اسلئے کہا جاتا ہے ۔ کہ انجام کا ر وہ اپنے فعل پر پشیمان ہوتے ہیں ۔
Top