Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mufradat-ul-Quran - Al-Maaida : 4
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ١ؕ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ١ۙ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ١٘ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
يَسْئَلُوْنَكَ
: آپ سے پوچھتے ہیں
مَاذَآ
: کیا
اُحِلَّ
: حلال کیا گیا
لَهُمْ
: ان کے لیے
قُلْ
: کہ دیں
اُحِلَّ
: حلال کی گئیں
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الطَّيِّبٰتُ
: پاک چیزیں
وَمَا
: اور جو
عَلَّمْتُمْ
: تم سدھاؤ
مِّنَ
: سے
الْجَوَارِحِ
: شکاری جانور
مُكَلِّبِيْنَ
: شکار پر دوڑائے ہوئے
تُعَلِّمُوْنَهُنَّ
: تم انہیں سکھاتے ہو
مِمَّا
: اس سے جو
عَلَّمَكُمُ
: تمہیں سکھایا
اللّٰهُ
: اللہ
فَكُلُوْا
: پس تم کھاؤ
مِمَّآ
: اس سے جو
اَمْسَكْنَ
: وہ پکڑ رکھیں
عَلَيْكُمْ
: تمہارے لیے
وَاذْكُرُوا
: اور یاد کرو (لو)
اسْمَ
: نام
اللّٰهِ
: اللہ
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
سَرِيْعُ
: جلد لینے والا
الْحِسَابِ
: حساب
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں۔ اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو۔ اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے۔ (اس طریق سے) تم نے انکو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑنے وقت) خدا کا نام لیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے۔
يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ 0ۭ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ 0ۙ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللہُ 0ۡفَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہِ 0۠ وَاتَّقُوا اللہَ 0ۭ اِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ 4 سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ ( ماذا) يستعمل علی وجهين : أحدهما . أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی: وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔ حلَ أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه/ 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد/ 31] ، ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد/ 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی حلَال حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة/ 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل/ 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو جرح الجرح : أثر دام في الجلد، يقال : جَرَحَه جَرْحاً ، فهو جَرِيح ومجروح . قال تعالی: وَالْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] ، وسمي القدح في الشاهد جرحا تشبيها به، وتسمی الصائدة من الکلاب والفهود والطیور جَارِحَة، وجمعها جَوَارِح، إمّا لأنها تجرح، وإمّا لأنها تکسب . قال عزّ وجلّ : وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة/ 4] ، وسمیت الأعضاء الکاسبة جوارح تشبيها بها لأحد هذين، والاجتراح : اکتساب الإثم، وأصله من الجِرَاحة، كما أنّ الاقتراف من : قرف القرحة قال تعالی: أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية/ 21] . ( ج ر ح ) جرحہ ( جرجا زخمی کرنا صفت مفعول جریج ومجروح ( جرح ( آم ) ج جروح قرآن میں ہے : ۔ الْجُرُوحَ قِصاصٌ [ المائدة/ 45] اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے اور زخم کے ساتھ تشبیہ دے کر گواہ پر بحث کرنے کو بھی جرح کہا جاتا ہے اور کتے چیتے اور پرند سے شکاری جانور کو جارحۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع جوارح ہے اور شکاری جانوروں کو جوارح یا تو اس لئے کہا جاتا کہ وہ شکار کو زخمی کرتے ہیں اور یا اس لئے کہ وہ کما کر لاتے ہیں ان ہر دو وجوہ میں سے کسی ایک کی بنا پر اعضا کا سبہ یعنی ہاتھ پاؤں کو جوارح کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ [ المائدة/ 4] اور وہ شکار بھی حلال ہے ) جو تمہارے شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہے : ۔ الارجتراح ( جرائم کا ارتکاب کرنا ) اصل میں جراحۃ سے ہے جیسا کہ اقتراف کا لفظ قرن القرحۃ سے مشتق ہے جس کے معنی زخم کو چھیلنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ [ الجاثية/ 21] جو لوگ برے کام کرتے ہیں کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں ۔ كلب الكَلْبُ : الحیوان النّبّاح، والأنثی كَلْبَةٌ ، والجمع : أَكْلُبٌ وكِلَابٌ ، وقد يقال للجمع كَلِيبٌ. قال تعالی: كَمَثَلِ الْكَلْبِ [ الأعراف/ 176] قال : وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ بِالْوَصِيدِ [ الكهف/ 18] وعنه اشتقّ الکلب للحرص، ومنه يقال : هو أحرص من کلب» ، ورجل كِلبٌ: شدید الحرص، وكَلْبٌ كَلِبٌ. أي : مجنون يَكْلَبُ بلحوم الناس فيأخذه شبه جنون، ومن عقره كُلِبَ. أي : يأخذه داء، فيقال : رجل كَلِبٌ ، وقوم كَلْبَى. قال الشاعر : دماؤهم من الکلب الشّفاء «2» وقد يصيب الكَلِبُ البعیرَ : ويقال : أَكْلَبَ الرّجلُ : أصاب إبله ذلك، وكَلِبَ الشّتاءُ : اشتدّ برده وحدّته تشبيها بِالْكَلْبِ الْكَلِبِ ، ودهر كَلِبٌ ، ويقال : أرض كَلِبَةٌ: إذا لم ترو فتیبس تشبيها بالرّجل الکلب، لأنه لا يشرب فييبس . والکَلَّابُ وَالمُكَلِّبُ : الذي يعلّم الکلب . قال تعالی: وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَ [ المائدة/ 4] . وأرض مَكْلَبَةٌ: كثيرة الکلاب، والْكَلْبُ : المسمار في قائم السّيف، والْكَلْبَةُ : سير يدخل تحت السّير الذي تشدّ به المزادة فيخرز به، وذلک لتصوّره بصورة الکلب في الاصطیاد به، وقد كَلَبْتُ الأديم : خرزته، بذلک، قال الشاعر : سير صناع في أديم تَكْلُبُهُ «3» والْكَلْبُ : نجم في السّماء مشبّه بالکلب لکونه تابعا لنجم يقال له : الرّاعي، والْكَلْبَتَانِ : آلة مع الحدّادین سمّيا بذلک تشبيها بکلبین في اصطیادهما، وثنّي اللّفظ لکونهما اثنین، والکَلُّوبُ : شيء يمسک به، وكَلَالِيبُ البازي : مخالبه . اشتقّ من الکلب لإمساکه ما يعلق عليه إمساک الکلب . ( ک ل ب ) الکلب ( کتا ) بھونکنے والاجانور ۔ اس کی مونث کلبتہ اور جمع کلب وکلاب آتی ہے ۔ کبھی اس کی جمع کلیب بھی آجاتی ہے ۔ كَمَثَلِ الْكَلْبِ [ الأعراف/ 176] تو اس کی مثال کتے کی کسی ہے ۔ وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ بِالْوَصِيدِ [ الكهف/ 18] اور ان کا کتا چو کھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا ۔ اور اسی سے اکلب ( بفتح اللام ) مشتق جس کے معنی شدت حرص کے ہیں ۔ اسی سے کہا جاتا ہے : ھو احرص من کلب ۔ وہ کتے سے زیادہ حریص ہے اور رجل کلب کے معنی سخت حریص آدمی کے ہیں اور کلب کلب باء لا کتا جسے انسان کا گوشت کھانے کا چسکا لگ جاتا ہے ۔ اور جسے وہ کاٹ کھائے اسے بھی ہڑکائے کتے جیسا مرض لاحق ہوجاتا ہے مفرد کے لئے رجل کلب اور کے لئے قوم کلبٰی کہتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 3 81 ) دماء ھم من الکلب الشفلا ان کے خون کلب کی مرض سے شفا بخشے ہیں ۔ اور کبھی یہ مرض اونٹ کو بھی لاحق ہوجاتا ہے چناچہ اکلب ا الرجل کے معنی باؤلے اونٹ کا مالک ہونے کے ہیں ۔ کلب الشتاء سردی سخت ہوگئی گویا وہ کتے کی طرح باؤلی ہوگئی ہے ۔ دھر کلب سخت زمانہ ۔ ارض کلبتہ ۔ اس زمین کو کہتے ہیں جو سیر لب نہ ہونے کی وجہ سے خشک ہوجائے جیسا کہ باؤلا ادمی پانی نہ پینے کی وجہ سے آخر کار سوکھ کر رہ جاتا ہے الکلاب والمکلب ۔ اس شخص کو کہتے ہیں جو کتوں کو شکار کے لئے سدھاتا اور انہیں تعلیم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَ [ المائدة/ 4] اور وہ شکار بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہے ۔ ارض مکلبتہ ۔ بہت کتول والی سر زمین ۔ الکلاب والکلب ۔ میخ جو تلوار کے قبضہ میں لگی ہوتی ہے ۔ الکبتہ ۔ توشہ دان باندھنے کے تسمیہ سے نیچے کا تسمیہ جس سے اسے سیا جاتا ہے ۔ اس کا یہ نام شکاری کتے کی مناسبت سے رکھا گیا ہے ۔ پس کلبت الادیم کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( الرحز ) ( 382 ) سیر صیناع فی ادیم تکلبتہ کاریگر عورت کے تسمیہ کیطرح ملائم اور چمکدار ہے جس سے وہ مشکیزہ سیرہی ہو ۔ الکلب ۔ تاروں کے ایک جھمکے کا نام ہے جسے کتے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے ۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے جھمکے کے تابع ہوتا ہے جسے الراعی ( چروہا ) کہا جاتا ہے ۔ الکلبتان ( سپناہ ) لوہار کے ایک اوزار کا نام ہے جس سے وہ گرم لوہا کو پکڑتا ہے کسی چیز کو پکڑنے کے لحاظ سے اسے شکار کتے کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں ۔ اور دوکنارے ہونے کی ۔ وجہ سے تنثیہ کا لفظ اختیار کیا گیا ہے ۔ الکلوب ۔ کنڈی ۔ کلالیب جمع کلالیب البازی ۔ باز کے نیچے یہ بھی کلکب سے مشتق ہے ۔ کیونکہ جو چیز اس کے پنجہ میں آجائے اسے کتے طرح پکڑ کر روک لیتا ہے ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ مسك إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] ، أي : يحفظها، ( م س ک ) امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہتہٌ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج/ 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ سرع السُّرْعَةُ : ضدّ البطء، ويستعمل في الأجسام، والأفعال، يقال : سَرُعَ ، فهو سَرِيعٌ ، وأَسْرَعَ فهو مُسْرِعٌ ، وأَسْرَعُوا : صارت إبلهم سِرَاعاً ، نحو : أبلدوا، وسَارَعُوا، وتَسَارَعُوا . قال تعالی: وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] ، وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] ( س ر ع ) السرعۃ اس کے معنی جلدی کرنے کے ہیں اور یہ بطا ( ورنگ گردن ) کی ضد ہے ۔ اجسام اور افعال دونوں کے ( ان کے اونٹ تیز رفتاری سے چلے گئے ) آتے ہں ۔ جیسا کہ اس کے بالمقابل ایلد وا کے معنی سست ہونا آتے ہیں ۔ سارعوا وتسارعو ایک دوسرے سے سبقت کرنا چناچہ قرآن میں ہے : وَسارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ [ آل عمران/ 133] اور اپنے پروردگار کی بخشش ( اور بہشت کی ) طرف لپکو ۔ وَيُسارِعُونَ فِي الْخَيْراتِ [ آل عمران/ 114] اور نیکیوں پر لپکتے ہیں ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق/ 44] اس روز زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور جھٹ جھٹ نکل کھڑے ہوں گے ۔ حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ، وقیل : لا يعلم حسبانه إلا الله، ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔
Top