Mufradat-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 32
قَالُوْۤا اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَۙ
قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اِنَّآ : بیشک ہم اُرْسِلْنَآ : بھیجے گئے ہم اِلٰى : طرف قَوْمٍ مُّجْرِمِيْنَ : مجرم قوم کے
انہوں نے کہا کہ ہم گنہگاروں کی طرف بھیجے گئے ہیں
قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْـرِمِيْنَ۝ 32 ۙ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔
Top