Mufradat-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 34
مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِیْنَ
مُّسَوَّمَةً : نشان لگے ہوئے ہیں عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے ہاں لِلْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والوں کے لیے
جن پر حد سے بڑھ جانے والوں کے لئے تمہارے پروردگار کے ہاں سے نشان کردیئے گئے ہیں
مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِيْنَ۝ 34 سام السَّوْمُ أصله : الذّهاب في ابتغاء الشیء، فهو لفظ لمعنی مركّب من الذّهاب والابتغاء، وأجري مجری الذّهاب في قولهم : سَامَتِ الإبل، فهي سَائِمَةٌ ، ومجری الابتغاء في قولهم : سُمْتُ كذا، قال : يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذابِ [إبراهيم/ 6] ، ومنه قيل : سِيمَ فلان الخسف، فهو يُسَامُ الخسف، ومنه : السَّوْمُ في البیع، فقیل : ( صاحب السّلعة أحقّ بالسّوم) ويقال : سُمْتُ الإبل في المرعی، وأَسَمْتُهَا، وسَوَّمْتُهَا، قال : وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل/ 10] ، والسِّيمَاءُ والسِّيمِيَاءُ : العلامة، قال الشاعر : له سيمياء لا تشق علی البصر وقال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح/ 29] ، وقد سَوَّمْتُهُ أي : أعلمته، وقوله عزّ وجلّ في الملائكة : مُسَوِّمِينَ أي : معلّمين ومُسَوِّمِينَ معلّمين لأنفسهم أو لخیولهم، أو مرسلین لها، وروي عنه عليه السلام أنه قال : «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» ( س و م ) السوم کے معنی کسی چیز کی طلب میں جانیکے ہیں پس اسکا مفہوم دو اجزاء سے مرکب ہے یعنی طلب اور جانا پھر کبھی صرف ذہاب یعنی چلے جانا کے معنی ہوتے ہیں ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح/ 29] کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ اور سومتہ کے معنی نشان زدہ کرنے کے ہیں ۔ مُسَوِّمِينَ اور مسومین کے معنی معلمین کے ہیں یعنی نشان زدہ اور مسومین ( بصیغہ فاعل ) کے معنی والے یا ان کو چھوڑ نے والے ۔ آنحضرت سے ایک روایت میں ہے «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» کہ تم بھی نشان بنالو کیونکہ فرشتوں نے اپنے لئے نشان بنائے ہوئے ہیں ۔ وہ لوگ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے اور رسیم فلان الخسف ( فلاں کو خسف کا عذاب دیا گیا ) یا ھو یسام الخسف ۔ کا محاورہ بھی اسی سے ماخوذ ہے اور اسی سے بیع من السوم ہے جس کے معنی نرخ کرنا کے ہیں چناچہ کہا گیا ہے صاحب السلعۃ احق بالسوم سامان کا مالک نرخ کرنے کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور سمت الابل فی المرعی کے معنی چراگاہ میں چرنے کے لئے اونٹ بھیجنے کے ہیں ۔ اور اسی معنی میں اسمت الابل ( افعال) وسوم تھا ( تفعیل آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل/ 10] اور اس سے درخت بھی ( شاداب ) ہوتے ہیں جن میں تم اپنے چار پویاں کو چراتے ہو ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ سرف السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] ، أي : المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة . ( س ر) السرف کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔
Top