Asrar-ut-Tanzil - An-Noor : 61
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ یَّوْمِهِمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ۠   ۧ
فَوَيْلٌ : پس ہلاکت ہے لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا مِنْ يَّوْمِهِمُ : ان کے اس دن سے الَّذِيْ : وہ جو يُوْعَدُوْنَ : وہ وعدہ کیے جاتے ہیں
نہ تو اندھے پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر اور نہ خود تم پر کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا اس گھر سے جس کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (اور اسکا بھی) تم پر کچھ گناہ نہیں کہ سب مل کر کھانا کھاؤ یا جدا جدا اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں کو) سلام کیا کرو (یہ) خدا کی طرف سے مبارک (اور) پاکیزہ (تحفہ) ہے اس طرح خدا اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو
اس میں گیارہ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لیس علی الاعمیٰ حرج اس آیت کی تفسیر میں علماء کے مختلف آٹھ اقوال ہیں اور ان میں قریب ترین تین ہیں کیا یہ منسوخ ہے یا ناسخ ہے یا محکم ہے ؟ (1) یہ وللا علی نفسکم سے لے کر آخر تک منسوخ ہے ؛ یہ عبدالرحمن بن زید کا قول ہے۔ فرمایا : یہ چیز ختم ہوچکی ہے، ابتدائے اسلام میں تھی جب کہ ان کے دروازے بند نہیں ہوتے تھے اور ان کے دروازوں پر پردے لٹکے ہوئے ہوتے تھے۔ بعض اوقات کوئی شخص آتا تھا وہ گھر میں داخل ہوتا تھا جب کہ وہ بھوکا ہوتا تھا اور گھر میں کوئی شخص نہیں ہوتا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اس گھر سے کھانا جائز قرار دیا تھا پھر گھروں کے دروازے بن گئے تو اب کسی کے لیے ان کو کھولنا جائز نہیں پس یہ حکم ختم ہوگیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے ؛ یہ ایک جانور نہ دو ہے مگر اس کی اجازت سے “ (1) اس حدیث کو ائمہ نے نقل کیا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے ؛ یہ ایک جماعت کا قول ہے۔ حضرت علی بن ابکی طلحہ نے حضرت ابن عبب اس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے یا یھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل (النسائ :29) نازل فرمایا تو مسلمانوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے مال باطل ذریعہ سے کھانے سے منع فرمایا ہے اور طعام، اموال سے افضل ہے (2) پس ہم میں سے کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی کے پاس کھانا کھائے، پس لوگ اس سے باز آگئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ ابن زید نے کہا : یہ جنگ میں حرج ہے (2) یعنی جنگ میں پیچھے رہ جانے میں کوئی حرج نہیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ولا علی انفسکم یہ پہلے کلام سے جدا ہے۔ ایک فرقہ نے کہا : پوری آیت کھانوں کے بارے میں ہے۔ فرمایا : عرب اور جو مدینہ طیبہ میں رہتے تھے بعثت سے پہلے معذور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے سے اجتناب کرتے تھے۔ بعض تو نفرت کرتے ہوئے ایسا کرتے تھے کیونکہ نابینا ہاتھ کو کھانے میں گھماتا رہتا ہے اور لنگڑے کے پاس غرور کی وجہ سے نہیں بیٹھتے تھے اور مریض کی بدبو اور بیماری کی وجہ سے اس کے پاس نہیں بیٹھتے تھے یہ زمانہ جاہلیت کے اخلاق تھے اور یہ تکبر تھا تو یہ آیت یہ اعلان کرتے ہوئے نازل ہوئی اور بعض لوگ غیر معذور سے بچنے کے لیے ایسا کرتے تھے کیونکہ وہ کھانے میں صحیح لوگوں سے درجہ میں کم ہوتے تھے کیونکہ نابینے کو دکھائی نہیں دیتا اور لنگڑا مزاحمت سے عاجز ہوتا ہے اور مریض کمزور ہوتا ہے تو ان کے ساتھ کھانے کی اباحت میں آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے زہروی کی کتاب میں فرمایا : عذر والے لوگ اپنے عذر کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے سے بچتے تھے تو یہ آیت ان کے لیے اباحت کا اظہار کرتے ہوئے نازل ہوئی۔ بعض علماء نے فرمایا : آدمی جب کسی معذور کو اپنے گھر لے جاتا تھا اور اپنے گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں پاتا تھا تو وہ اسے اپنے قرابت داروں کے گھر لے جاتا تھا پس عذر والے لوگ اس سے بچتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولا علی انفسکم یہاں سے کلام کا آغاز ہو رہا ہے یعنی اے لوگو ! تم پر کوئی حرج نہیں جو مخاطب اور غیر مخاطب جمع تھے تو مخاطب کو غلبہ دیا تاکہ کلام کا نظم باقی رہے۔ قرابت داروں کے گھروں کا ذکر کیا اور بیٹوں کے گھروں کا ذکر نہیں کیا۔ مفسرین نے فرمایا : یہ فی بیوتکم میں داخل ہیں کیونکہ بیٹے کا گھر باپ کا گھر ہوتا ہے۔ نحاس نے کہا : بعض علماء نے اس قول کی مخالفت کی ہے تو فرمایا : یہ کتاب اللہ پر حکم لگانا ہے بلکہ ظاہر میں اولیٰ یہ ہے کہ بیٹا ان کے مخالف نہ ہو۔ اور انت ومالک لابیک (1) تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے کی روایت سے بھی حجت قوی نہیں ہوتی کیونکہ یہ حدیث بہت کمزور ہے اگر یہ صحیح بھی ہوتی تو اس میں حجت نہیں تھی کیونکہ نبی کریم ﷺ جانتے تھے کہ اس مخ۔ اطب کا مال اس کے باپ کا ہے۔ یعنی مالک لک۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بعض علماء نے فرمایا : ان کے گھروں سے کھانا تب جائز ہے جب وہ اسے اجازت دیں۔ بعض علماء نے کہا : وہ اسے اجازت دیں یا نہ دیں اس کے لیے کھانا جائز ہے کیونکہ قرابت جوان کے درمیان ہے یہ ان کی طرف سے اذن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قرابت میں ایک کھانا جائز ہے کیونکہ قرابت مہربانی ہے اس مہربانی اور شفقت کی وجہ سے نفوس کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ ان کی کوئی چیز کھالے جب انہیں اس کے کھانے کے متعلق معلوم ہوگا تو وہ خوش ہوں گے۔ ابن عربی نے بغیر اجازت نسب کی وجہ سے کھانا ہمارے لیے مباح قرار دیا ہے جب کہ کھانا معمول کے مطابق ہو۔ جب کھانا مخصوص ہو اور محفوظ کیا گیا ہو تو پھر کھانا جائز نہیں اور یہ بھی جائز نہیں کہ وہ ذخیرہ کریں اور رنہ ایسی چیز کی طرف تجاوز کریں جو کھانے والی نہ ہو اگرچہ وہ غیر محفوظ ہو مگر ان کی اجازت سے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اوما ملکتم مفارتحہ یعنی جو تم نے خزانہ کیا اور تمہارے قبضہ میں ہے۔ اور اس کو عظیم سمجھتا ہے انسان جس کو وہ اپنے گھر میں مالک ہوتا ہے اور اس کے قبضہ میں ہوتا ہے، یہ ضحاک، قتادہ اور مجاہد کی تاویل ہے اور جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں وکلاء غلام اور مزدور سب داخل ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : انسان کا وکیل اس کے مال کی حفاظت کرتا ہے، خازن اس کے مال کی حفاظت کرتا ہے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ معمولی سی چیز کھالے۔ ابن عربی نے کہا : خازن کے لیے جائز ہے کہ وہ جس کو خزانہ کرتا ہے اس سے کچھ کھائے۔ اس پر اجماع ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب اس کے لیے اجرت نہ ہو لیکن جب اس کے لیے اجرت ہو تو اس پر کھانا حرام ہے۔ سعید بن جبیر نے ملکتم میم کے ضمہ، لام لام کے کسرہ اور شد کے ساتھ پڑھا ہے اور مفاتیحہ تاء اور حائء کے درمیان یاء کے ساتھ پڑھا ہے یہ مفتاح کی جمع ہے۔ یہ سورة انعام میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اوصدیقکم۔ صدیق جمع کے معنی میں ہے اس طرح العدو ہے جمع کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فانھم عدولی (الشعرائ :77) وہ میرے دشمن ہیں۔ جریر نے کہا : الصدیق وہ ہوتا ہے جو اپنی محبت میں تجھ سے سچ بولتا ہے اور تو اپنی محبت میں اس سے سچ بولتا ہے۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لاتدخلوا بیوت النبی الا ان یؤذن لکم (الاحزاب :53) کے ارشاد کے ساتھ اور فان لم تجدوا فیھا احدا فلا تدخلوھا کے قول کے ساتھ اور نبی کریم ﷺ کے ارشاد : لا یحل مال امرء مسلم الا بطیبۃ نفس منہ (2) ۔ کے ساتھ منسوخ ہے۔ بعض نے کہا : یہ محکم ہے۔ یہ اصح ہے۔ محمد بن ثور نے معمر سے روایت کیا ہے فرمایا : میں قتادہ کے گھر داخل ہوا تو میں نے اس میں کھجوریں دیکھیں میں نے انہیں کھانا شروع کردیا انہوں نے فرمایا : یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا : میں نے تیرے گھر میں کھجوریں دیکھیں تو میں نے کھانا شروع کردیا۔ فرمایا : تو نے اچھا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : او صدیقکم عبدالرزاق نے معمر سے انہوں نے قتادہ سے۔ او صدیقکم کے تحت فرمایا : جب تو اپنے دوست کے گھر اس کے حکم کے بغیر داخل ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ معمر نے کہا میں نے قتادہ سے کہا : کیا میں اسگھڑے سے پی لوں ؟ انہوں نے فرمایا : تو میرا دوست ہے پھر یہ اجازت کیسی ہے ؟ نبی کریم ﷺ حضرت ابو طلحہ کے باس بیر حاء میں داخل ہوتے تھے اور ان کی اجازت کے بغیر اس کا میٹھا پانی پیتے تھے جیسا کہ علماء نے فرمایا ہے۔ علماء نے فرمایا : پانی اپنے ملکوں کی ملکیت میں ہوتا ہے جب دوست کے پانی سے بغیر اجازت پینا جائز ہے تو اس کے پھلوں اور طعام سے کھانا بھی جائز ہے جب اسے معلوم ہو کہ اس کا دوست اس سے خوشی محسوس کرے گا کیونکہ اس کے ساتھ اس کی بات چیت ہوتی ہے نیز اس میں مشقت بھی کم ہے یا ان کے درمیان محبت ہے۔ اسی مفہوم میں ام حرام کا رسول اللہ ﷺ کو کھانا کھلانا ہے جب وہ ان کے پاس سوتے تھے کیونکہ اغلب یہ ہے کہ جو کچھ گھر میں ہوتا ہے وہ مرد کا ہوتا ہے۔ اور اس کی بیوی کا ہاتھ اس میں عاریتہ ہوتا ہے۔ یہ تمام اسی صورت میں ہے جب تک وہ کپڑے میں باندھ کر نہ لے جائے اور اس سے اپنے مال کو بچانے کا ارادہ نہ ہو اور وہ مال معمولی حیثیت کا ہو۔ مسئلہ نمبر 8 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعاً او اشتاتاً بعض علماء نے کہا : یہ بنی لیث بن بکر کے بارے میں نازل ہوئی یہ بنی کنانہ سے ایک قبیلہ ہے ان میں سے کوئی شخص تنہا کھانا نہیں کھاتا تھا اور کئی دن تک بھوکا رہتا تھا حتیٰ کہ وہ کوئی ایسا شخص پا لیتا جو اس کے ساتھ کھانا کھاتا ؛ اسی سے کسی کا قول ہے : اذا ما صنعت الزاد فالتمسی لہ اکیلا فانی لست اکلہ وحدی (2) ابن عطیہ نے کہا : یہ سیرت انیں حضرت ابراہیم سے میراثا ملی تھی۔ حضرت ابراہیم تنہا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اور بعض عرب ایسے تھے کہ جب ان کا مہمان ہوتا تو وہ میزبان مہمان کے ساتھ کھانا کھاتا تھا تو آیت کریمہ کھانے کی سنت کو بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی اور یہ سرات عرب میں سے جو اس کے مخالف تھا اس کو یہ ختم کرنے والی ہے اور عربوں کے نزدیک تنہا کھانا جو حرام تھا اس کو مباح کرنے والی ہے اس کے ذریعے اخلاق کریمانہ کا قصد کیا ہے اور اس لازم کرنے میں مبالغہ کیا ہے کھانے والے کو حاضر کرنا اچھی باتی ہے کہ تنہا کھانا بھی حرام نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر 9 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جمیعاً اواشتاتاً ، پر نصب حال کی بناء پر ہے۔ اشتاتاشت کی جمع ہے۔ الشت بمعنی التفرق (جدا جدا ہونا) ہے کہا جاتا ہے : شت القوم یعنی قوم جدا جدا ہوئی۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے۔ لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج والنھد والاجماع۔ اس باب سے مقصود بقول ہمارے علماء اکٹھا کھانا مباح ہے اگرچہ کھانے میں احوال مختلف ہوں نبی کریم ﷺ نے اس کی اجازت دی ہے پس یہ ان گروہوں میں سنت ہے جو اجتماعی کھانے، دعوت ولیمہ اور سفر میں کھانا ختم ہونے کی صورت میں کھانے کی طرف بلائے جاتے ہیں اور جس کی چابیوں کا تو امین یا دوستی کی وجہ سے مالک ہو تو تیرے لیے رشتہ دار یا دوست کے ساتھ مل کر کھانا اور تنہا کھانا جائز ہے۔ النھد سے مرادوہ مال یا کھانا ہوتا ہے جس کو احباب خرچ کرنے کے لیے جمع کرتے ہیں پھر اسے آپس میں خرچ کرتے ہیں تو کہتے ہیں : تناھدوا انہوں نے خوراک کو جمع کیا پھر اکٹھا خرچ کیا۔
Top