Mufradat-ul-Quran - At-Tur : 37
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآئِنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜیْطِرُوْنَؕ
اَمْ عِنْدَهُمْ : یا ان کے پاس خَزَآئِنُ : خزانے ہیں رَبِّكَ : تیرے رب کے اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ : یا وہ محفاظ ہیں۔ داروغہ ہیں
کیا ان کے پاس تمہارے پروردگار کے خزانے ہیں یا یہ (کہیں کے) داروغہ ہیں
اَمْ عِنْدَہُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ ہُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ۝ 37 ۭ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ خزن الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] ( خ زن ) الخزن کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر/ 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ صطر صَطَرَ وسَطَرَ واحدٌ. قال تعالی: أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ [ الطور/ 37] ، وهو مفیعل من السَّطْرِ ، والتَّسْطِيرُ أي : الکتابة، أي : أهم الذین تولّوا کتابة ما قدّر لهم قبل أن خلق، إشارة إلى قوله : إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] ، وقوله : فِي إِمامٍ مُبِينٍ [يس/ 12] ، وقوله : لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ [ الغاشية/ 22] ، أي : متولّ أن تکتب عليهم وتثبت ما يتولّونه، وسَيْطَرْتُ ، وبَيْطَرْتُ لا ثالث لهما في الأبنية، وقد تقدّم ذلک في السّين ( ص ط ر ) صطر وسطر ( ن ) کے ایک ہی معنی ہیں یعنی لکھنا ( سیدھی لائنوں میں اور آیت : ۔ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ [ الطور/ 37] یا یہ ( کہیں کہ ) داروغہ ہیں ۔ میں المصیطرون سطر سے مفعیل کے وزن پر ہے ۔ اور التسطیر جس کے معنی لکھنے کے ہیں اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ کیا تخلیق سے قبل یہ اپنے نوشتہ تقدیر کے لکھنے پر مقرر تھے ( کہ انہیں ہر بات کا علم ہوچکا ہے یعنی نہیں ) اس میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ ذلِكَ فِي كِتابٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] یہ سب کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے بیشک یہ سب خدا کو آسان ہے ۔ اور آیت فِي إِمامٍ مُبِينٍ [يس/ 12] اور ہر چیز کو ہم نے کتاب روشن ( یعنی لوح محفوظ ) میں لکھ رکھا ہے ۔ کے معنی کی طرف اشارہ ہے اور آیت : لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ [ الغاشية/ 22] تم ان پر دراوغہ نہیں ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ان پر لکھنے کے لئے مقرر نہیں ہوا اور نہ ہی اس چیز کو ثابت کرنے کے ذمہ دار ہو جس کے یہ متولی بنتے ہیں اور عربی میں سیطرت و یبطرت کے علاوہ تیسرا لفظ اس وزن پر نہیں آتا تشریح کے لئے دیکھئے ( س ط ر)
Top