Mufradat-ul-Quran - An-Najm : 18
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى
لَقَدْ رَاٰى : البتہ تحقیق اس نے دیکھیں مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ : اپنے رب کی نشانیوں میں سے الْكُبْرٰى : بڑی بڑی
انہوں نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کی کتنی ہی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّہِ الْكُبْرٰى۝ 18 ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ تَّكْبِيرُ ، اکبر، کبار والتَّكْبِيرُ يقال لذلک، ولتعظیم اللہ تعالیٰ بقولهم : اللہ أَكْبَرُ ، ولعبادته واستشعار تعظیمه، وعلی ذلك : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة/ 185] ، وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء/ 111] ، وقوله : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر/ 57] فهي إشارة إلى ما خصّهما اللہ تعالیٰ به من عجائب صنعه، وحکمته التي لا يعلمها إلّا قلیل ممّن وصفهم بقوله : وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران/ 191] فأمّا عظم جثّتهما فأكثرهم يعلمونه . وقوله : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] فتنبيه أنّ كلّ ما ينال الکافر من العذاب قبل ذلک في الدّنيا وفي البرزخ صغیر في جنب عذاب ذلک الیوم . والْكُبَارُ أبلغ من الْكَبِيرُ ، والْكُبَّارُ أبلغ من ذلك . قال تعالی: وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح/ 22] . التکبیر ( تفعیل ) اس کے ) ایک معنی تو کسی کو بڑا سمجھنے کے ہیں ۔ اور دوم اللہ اکبر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عظمت کا احساس ر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة/ 185] اور اس احسان کے بدلے کو خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو ۔۔ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء/ 111] اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو ۔ اور آیت : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر/ 57] آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کر نا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ میں اکبر کا لفظ سے قدرت الہی کی کاریگری اور حکمت کے ان عجائب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ جو آسمان اور زمین کی خلق میں پائے جاتے ہیں ۔ اور جن کو کہ وہ خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں ۔ جن کی وصف میں فرمایا ۔ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران/ 191] اور آسمان اور زمین پیدا ئش میں غور کرتے ہیں ۔ ور نہ ان کی ظاہری عظمت کو تو عوام الناس بھی سمجھتے ہیں ( اس لئے یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں ) اور آیت : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان/ 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ روز قیامت سے پہلے دنیا یا علم برزخ میں کافر کو جس قد ر بھی عذاب ہوتا ہے عذاب آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔ الکبار ۔ اس میں کبیر کے لفظ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور کبار ( بتشدید یاء ) اس سے بھی زیادہ بلیغ ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَمَكَرُوا مَكْراً كُبَّاراً [ نوح/ 22] اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے ۔
Top