Mufradat-ul-Quran - At-Tawba : 45
وَ اَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰىۙ
وَاَنَّهٗ : اور بیشک وہی ہے خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ : جس نے پیدا کیا جوڑوں کو الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى : نر اور مادہ (کی شکل میں)
اور یہ کہ وہی نر اور مادہ دو قسم (کے حیوان) پیدا کرتا ہے
وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى۝ 45 ۙ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ ذَّكَرُ ( مذکر) والذَّكَرُ : ضدّ الأنثی، قال تعالی: وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران/ 36] ، وقال : آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] ، وجمعه : ذُكُور وذُكْرَان، قال تعالی: ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری/ 50] ، وجعل الذَّكَر كناية عن العضو المخصوص . والمُذْكِرُ : المرأة التي ولدت ذکرا، والمِذْكَار : التي عادتها أن تذكر، وناقة مُذَكَّرَة : تشبه الذّكر في عظم خلقها، وسیف ذو ذُكْرٍ ، ومُذَكَّر : صارم، تشبيها بالذّكر، وذُكُورُ البقل : ما غلظ منه الذکر ۔ تو یہ انثی ( مادہ ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران/ 36] اور ( نذر کے لئے ) لڑکا ( موزون تھا کہ وہ ) لڑکی کی طرح ( ناتواں ) نہیں ہوتا آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] کہ ( خدا نے ) دونوں ( کے ) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ( کی ) مادینوں کو ۔ ذکر کی جمع ذکور و ذکران آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری/ 50] بیٹے اور بیٹیاں ۔ اور ذکر کا لفظ بطور کنایہ عضو تناسل پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور عورت نرینہ بچہ دے اسے مذکر کہاجاتا ہے مگر المذکار وہ ہے ۔ جس کی عادت نرینہ اولاد کی جنم دینا ہو ۔ ناقۃ مذکرۃ ۔ وہ اونٹنی جو عظمت جثہ میں اونٹ کے مشابہ ہو ۔ سیف ذوذکر ومذکر ۔ آبدار اور تیر تلوار ، صارم ذکور البقل ۔ وہ ترکاریاں جو لمبی اور سخت دلدار ہوں ۔ أنث الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء/ 124] ، ولمّا کان الأنثی في جمیع الحیوان تضعف عن الذکر اعتبر فيها الضعف، فقیل لما يضعف عمله : أنثی، ومنه قيل : حدید أنيث قال الشاعر : عندي ... جراز لا أفلّ ولا أنيث وقیل : أرض أنيث : سهل، اعتبارا بالسهولة التي في الأنثی، أو يقال ذلک اعتبارا بجودة إنباتها تشبيها بالأنثی، ولذا قال : أرض حرّة وولودة . ولمّا شبّه في حکم اللفظ بعض الأشياء بالذّكر فذكّر أحكامه، وبعضها بالأنثی فأنّث أحكامها، نحو : الید والأذن، والخصية، سمیت الخصية لتأنيث لفظ الأنثيين، وکذلک الأذن . قال الشاعر : ضربناه تحت الأنثيين علی الکرد وقال آخر : وما ذکر وإن يسمن فأنثی يعني : القراد، فإنّه يقال له إذا کبر : حلمة، فيؤنّث . وقوله تعالی: إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِناثاً [ النساء/ 117] فمن المفسرین من اعتبر حکم اللفظ فقال : لمّا کانت أسماء معبوداتهم مؤنثة نحو : اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَناةَ الثَّالِثَةَ [ النجم/ 19- 20] قال ذلک : ومنهم۔ وهو أصحّ- من اعتبر حکم المعنی، وقال : المنفعل يقال له : أنيث، ومنه قيل للحدید الليّن : أنيث، فقال : ولمّا کانت الموجودات بإضافة بعضها إلى بعض ثلاثة أضرب : - فاعلا غير منفعل، وذلک هو الباري عزّ وجلّ فقط . - ومنفعلا غير فاعل، وذلک هو الجمادات . - ومنفعلا من وجه کالملائكة والإنس والجن، وهم بالإضافة إلى اللہ تعالیٰ منفعلة، وبالإضافة إلى مصنوعاتهم فاعلة، ولمّا کانت معبوداتهم من جملة الجمادات التي هي منفعلة غير فاعلة سمّاها اللہ تعالیٰ أنثی وبكّتهم بها، ونبّههم علی جهلهم في اعتقاداتهم فيها أنها آلهة، مع أنها لا تعقل ولا تسمع ولا تبصر، بل لا تفعل فعلا بوجه، وعلی هذا قول إبراهيم عليه الصلاة والسلام : يا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئاً [ مریم/ 42] . وأمّا قوله عزّ وجل : وَجَعَلُوا الْمَلائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبادُ الرَّحْمنِ إِناثاً [ الزخرف/ 19] فلزعم الذین قالوا : إنّ الملائكة بنات اللہ . ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔{ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى } ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) اور چونکہ تمام حیوانات میں مادہ منسلک نر کے کمزور ہوتی ہے لہذا اس میں معنی ضعف کا اعتبار کرکے ہر ضعیف الاثر چیز کو انثیٰ کہہ دیا جاتا ہے چناچہ کمزور لوہے کو حدید انیث کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع (28) ۔۔۔۔۔ عندی ۔۔ جراز لا افل ولا انیث میرے پاس شمشیر براں ہے جو کند اور کمزور نہیں ہی ۔ اور انثی ٰ ( مادہ) کے ساتھ تشبیہ دیکر نرم اور زرخیز زمین کو بھی ارض انیث کہہ دیا جاتا ہے یہ تشبہ یا تو محض نری کے اعتبار سے ہے ۔ اور یا عمدہ اور پیداوار دینے کے اعتبار سے ہے سے اسے انیث کہا گیا ہے جیسا کہ زمین کو عمدہ اور پیداوار کے اعتبار سے حرۃ اور ولو د کہا جات ہے ۔ پھر بعض اشیاء کو لفظوں میں مذکر کے ساتھ تشبیہ دے کر اس کے لئے صیغہ مذکر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور بعض کو مؤنث کے ساتھ تشبیہ دے کر صیغہ تانیث استعمال کرتے ہیں جیسے ۔ ید ۔ اذن اور خصیۃ چناچہ خصیتیں پر تانیث لفظی کی وجہ سے انثیین کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( ع وافر) (29) وماذکر وان یسمن مانثی ٰاور کونسا مذکر ہے کہ اگر وہ موٹا ہوجائے تو مؤنث ہوجاتا ہے ۔ اس سے مراد قرا دیعنی چیچر ہے کہ جب وہ بڑھ کر خوب موٹا ہوجاتا ہے تو اسے حلمۃ بلفظ مونث کہا جاتا ہے اسی طرح آیت کریمہ ؛۔ { إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا } ( سورة النساء 117) وہ خد ا کے سو ا جن کی بھی پرستش کرتے ہیں وہ مادہ ہیں ۔ میں اناث ، انثی ٰ کی جمع ہے ) بعض مفسرین نے احکام لفظیہ کا اعتبار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرکین اپنے بتوں کو جن اسماء سے پکارتے تھے جیسے لات ، عزی ، منات الثالثہ یہ سب مؤنث ہیں اس لئے قرآن نے اناث کہہ کر پکارا ہے ۔ اور بعض نے معنٰی کا اعتبار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر منفعل اور ضعیف چیز کو انیث کہا جاتا ہے جیسے کمزور لوہے پر انیث کا لفظ بولتے ہیں اسکی تفصیل یہ ہے کہ موجودات کی باہمی نسبت کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں فاعل غیر منفعل ، یہ صفت صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے ۔ منفعل غیر فاعل یہ خاصہ جمادات کا ہے ۔ 3 ۔ ایک اعتبار سے فاعل اور دوسرے اعتبار سے منفعل جیس جن دانس اور ملائکہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے منفعل اور اپنی مصنوعات کے لحاظ سے فاعل ہے اور چونکہ ان کے معبود جمادات کی قسم سے تھے جو منفعل محض ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اثاث کہہ کر پکارا ہے اور اس سے ان کی اعتقادی جہالت پر تنبیہ کی ہے کہ جنکو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں نہ عقل ہے نہ سمجھ ، نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں بلکہ کسی حیثیت سے بھی کوئی کام سرانجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے و تو حید کی طرف دعوت کے سلسلہ میں ) اپنے باپ سے کہا ۔ { يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا } ( سورة مریم 42) کہ ابا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں لیکن آیت کریمہ ؛۔ { وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا } ( سورة الزخرف 19) اور انہوں نے فرشتوں کو کہ وہ بھی خدا کے بندہ ہیں ( مادہ خدا کی بیٹیاں ) بنادیا میں ملائکہ کو اناث قرار دینے کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے ۔
Top