Mufradat-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 12
وَ الْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَ الرَّیْحَانُۚ
وَالْحَبُّ : اور غلے ذُو الْعَصْفِ : بھس والے وَالرَّيْحَانُ : اور خوشبودار پھول
اور اناج جس کے ساتھ بھس ہوتا ہے اور خوشبودار پھول
وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ۝ 12 ۚ حب ( دانه) الحَبُّ والحَبَّة يقال في الحنطة والشعیر ونحوهما من المطعومات، والحبّ والحبّة في بزور الریاحین، قال اللہ تعالی: كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة/ 261] ، وقال : وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 59] ، وقال تعالی: إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق/ 9] ، أي : الحنطة وما يجري مجراها ممّا يحصد، وفي الحدیث : «كما تنبت الحبّة في حمیل السیل» ( ج ب ب ) الحب والحبۃ ( فتحہ حاء ) گندم ۔ جو وغیرہ مطعومات کے دانہ کو کہتے ہیں ۔ اور خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج کو حب وحبۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة/ 261]( ان کے دلوں ) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں ۔ وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 59] اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] بیشک خدا ہی دانے اور گھٹلی کو پھاڑ کر ( ان سے درخت اگاتا ہے ۔ ) اور آیت کریمۃ ؛۔ فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق/ 9] اور اس باغ سے دلبستان اگائے اور اناج ۔ میں حب الحصید سے گندم وغیرہ مراد ہے جو کاٹا جاتا ہے اور حدیث میں ہے ۔ کما تنبت الحبۃ فی جمیل السیل ۔ جیسے گھاس پات کے بیج جو سیلاب کے بہاؤ میں آگ آتے ہیں ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ عصف العَصْفُ والعَصِيفَةُ : الذي يُعْصَفُ من الزّرعِ ، ويقال لحطام النّبت المتکسّر : عَصْفٌ. قال تعالی: وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن/ 12] ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل/ 5] ، ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس/ 22] ، وعَاصِفَةٌ ومُعْصِفَةٌ: تَكْسِرُ الشیءَ فتجعله كَعَصْفٍ ، وعَصَفَتْ بهم الرّيحُ تشبيها بذلک . ( ع ص) العصف واعصیفتہ کھیتی کے پتے جو کاٹ لئے جاتے ہیں نیز خشک نباتات جو ٹوٹ کر چور چور ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن/ 12] اور اناج چھلکے کے اندر ہوتا ہے ۔ ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل/ 5] جیسے کھا یا ہوا بھس ہو ۔ ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس/ 22] ریح عاصف وعاصفتہ ومعصفتہ تند ہوا جو ہر چیز کو توڑ کر بھس کی طرح بنادے اور مجازا عصفت بھم الریح کے معنی ہیں وہ ہلاک اور برباد ہوگئے ۔ رَّيْحَانُ : ما له رائحة، وقیل : رزق، ثمّ يقال للحبّ المأكول رَيْحَانٌ في قوله : وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحانُ [ الرحمن/ 12] ، وقیل لأعرابيّ : إلى أين ؟ فقال : أطلب من رَيْحَانِ الله، أي : من رزقه، والأصل ما ذکرنا . وروي : «الولد من رَيْحَانِ الله» وذلک کنحو ما قال الشاعر : يا حبّذا ريح الولد ريح الخزامی في البلد أو لأنّ الولد من رزق اللہ تعالیٰ ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے ۔ اور کھانے کے اناج کو بھی ریحان کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحانُ [ الرحمن/ 12] اور ہر طرح کے اناج جو ( بھوسی کے ) خول کے اندر ہوتے ہیں اور کھانے کا اناج ۔ ایک اعرابی سے پوچھا گیا کہ کہاں جا رہے ہو ۔ تو اس نے جواب دیا۔ أطلب من رَيْحَانِ اللہ : کہ میں اللہ کے رزق کی تلاش میں ہوں لیکن اصل معنی وہی ہیں ۔ جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں ( یعنی خوشبودار چیز ) ایک حدیث میں ہے ۔ ( 162) الولد من ریحان اللہ کہ اولاد بھی اللہ کے ریحان سے ہے اور یہ ایسے ہی ہے ۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے ۔ يا حبّذا ريح الولد ... ريح الخزامی في البلداولاد کی خوشبو کیسی پیاری ہے ۔ یہ خزامی گھاس کی خوشبو ہے جو شہر میں مہکتی ہے ۔ اولاد کو ریحان اس لئے کہا ہے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق ہے ۔
Top