Mufradat-ul-Quran - Al-Hadid : 3
هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ١ۚ وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
هُوَ الْاَوَّلُ : وہی اول ہے وَالْاٰخِرُ : اور وہی آخر ہے وَالظَّاهِرُ : اور ظاہر ہے وَالْبَاطِنُ ۚ : اور باطن ہے وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ : اور وہ ہر چیز کو عَلِيْمٌ : جاننے والا ہے
وہ (سب سے) پہلا اور (سب سے) پچھلا اور (اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر اور (اپنی ذات سے) پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے
ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۝ 0 ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝ 3 الاول۔ ہر چیز سے پہلا۔ کوئی اس سے پہلے نہیں۔ ہر موجود چیز کو نیستی سے ہستی میں لانے والا وہی ہے۔ الاخر ہر چیز کے فنا ہوجانے کے بعد باقی رہنے والا۔ ہر چیز اپنی ذات کے اعتبار سے فناء پذیر ہے اللہ تعالیٰ کا وجود اصل ہے جو قابل زوال نہیں۔ الظاھر ۔ ہر چیز سے بڑھ کر اس کا ظہور ہے۔ یہ ظھور سے جس کے معنی ظاہر ہونے بلند جگہ پر ہونے اور قابو پانے کے ہیں۔ اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ اسماء الٰہی میں الظاھر سے مراد وہ ذات عالی ہے جو ہر شے سے اوپر ہو اور ہر چیز پر غالب ہو۔ الباطن سب سے چھپا ہوا۔ بطن وبطرن سے واحد مذکر اسم فاعل کا صیغہ ہے جو غیر محسوس ہو اور آثار و افعال کے ذریعہ سے اس کا ادراک کیا جائے۔ اس کی حقیقت ذات سے مخفی ہے۔ والظاهر والباطن في صفات اللہ تعالی: لا يقال إلا مزدوجین، كالأوّل والآخرفالظاهر قيل : إشارة إلى معرفتنا البديهية، فإنّ الفطرة تقتضي في كلّ ما نظر إليه الإنسان أنه تعالیٰ موجود، كما قال : وَهُوَ الَّذِي فِي السَّماءِ إِلهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلهٌ [ الزخرف/ 84] ، ولذلک قال بعض الحکماء : مثل طالب معرفته مثل من طوف في الآفاق في طلب ما هو معه . والبَاطِن : إشارة إلى معرفته الحقیقية، وهي التي أشار إليها أبو بکر رضي اللہ عنه بقوله : يا من غاية معرفته القصور عن معرفته . وقیل : ظاهر بآیاته باطن بذاته، وقیل : ظاهر بأنّه محیط بالأشياء مدرک لها، باطن من أن يحاط به، كما قال عزّ وجل : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] . صفات الہی سے ہیں ۔ اور الاول والاخر کی طرح مزدجر یعنی ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں ۔ الظاھر کے متعلق بعض کا قول ہے کہ یہ اس معرفت کی طرف اشارہ ہے جو ہمیں بالبداہت حاصل ہوتی کیونکہ انسان جس چیز کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھے اس کی فطرت کا یہی فیصلہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي فِي السَّماءِ إِلهٌ وَفِي الْأَرْضِ إِلهٌ [ الزخرف/ 84] اور وہی ایک آسمانوں میں معبود ہے اور دوہی زمین میں معبود ہے اسی لئے بعض حکماء کا قول ہے کہ معرفت الہی کے طالب کی مثال اس شخص کی ہے جو اطراف عالم میں ایسی چیز کی تلاش میں سر گردان پھر رہا ہو ۔ جو خود اس کے پاس موجود ہو ۔ اور الباص سے اس حقیقی معرفت کی طرف اشارہ ہے جس کے متعلق حضرت ابوبکر نے فرمایا ہے ۔ اے وہ ذات جس کی معرفت کی انتہا اس کی معرفت سے در ماندگی ہے ) بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی آیات دولائل قدرت کے لحاظ سے ظاہر ہے اور باعتبار ذات کے باطن ہے ۔ اور بعض نے کہا کہ الظاہر سے اس کا تمام اشیاء پر محیط ہونا مراد ہے اور اس اعتبار سے کہ وہ ہمارے احاطہ اور اک میں نہیں آسکتا الباطن ہے ۔ چناچہ فرمان الہی ہے ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ) نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔
Top