Mufradat-ul-Quran - Al-An'aam : 100
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کا شُرَكَآءَ : شریک الْجِنَّ : جن وَخَلَقَهُمْ : حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا وَخَرَقُوْا : اور تراشتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے بَنِيْنَ : بیٹے وَبَنٰتٍ : اور بیٹیاں بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر (جہالت سے) سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور وہ بلند تر عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اور ان لوگوں نے جنوں کو خدا کا شریک ٹھیرایا حالانکہ ان کو اسی نے پیدا کیا اور بےسمجھے (جھوٹ بہتان) اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بنا کھڑی کیں وہ ان باتوں سے جو اس کے نسبت بیان کرتے ہے پاک ہے۔ اور (اسکی شان ان سے) بلند ہے۔
وَجَعَلُوْا لِلہِ شُرَكَاۗءَ الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ وَخَرَقُوْا لَہٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍؚبِغَيْرِ عِلْمٍ۝ 0ۭ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ۝ 100ۧ شرك ( شريك) الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] . ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ جِنّ ( شیطان) والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة : - أخيار : وهم الملائكة . - وأشرار : وهم الشیاطین . - وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] . والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] ، وقال تعالی: وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158 الجن جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن/ 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس/ 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات/ 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔ خرق الخَرْقُ : قطع الشیء علی سبیل الفساد من غير تدبّر ولا تفكّر، قال تعالی: أَخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أَهْلَها[ الكهف/ 71] ، وهو ضدّ الخلق، فإنّ الخلق هو فعل الشیء بتقدیر ورفق، والخرق بغیر تقدیر، قال تعالی: وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَناتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 100] ، أي : حکموا بذلک علی سبیل الخرق، وباعتبار القطع قيل : خَرَقَ الثوبَ ، وخَرَّقَه، وخَرَقَ المفاوز، واخْتَرَقَ الرّيح . وخصّ الخَرْق والخریق بالمفاوز الواسعة، إمّا لاختراق الریح فيها، وإمّا لتخرّقها في الفلاة، وخصّ الخرق بمن ينخرق في السخاء «1» . وقیل لثقب الأذن إذا توسّع : خرق، وصبيّ أَخْرَقُ ، وامرأة خَرْقَاء : مثقوبة الأذن ثقبا واسعا، وقوله تعالی: إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ [ الإسراء/ 37] ، فيه قولان : أحدهما : لن تقطع، والآخر : لن تثقب الأرض إلى الجانب الآخر، اعتبارا بالخرق في الأذن، وباعتبار ترک التقدیر قيل : رجل أَخْرَقُ ، وخَرِقُ ، وامرأة خَرْقَاء، وشبّه بها الریح في تعسّف مرورها فقیل : ريح خرقاء . وروي : «ما دخل الخرق في شيء إلّا شانه» «2» . ومن الخرق استعیرت المَخْرَقَة، وهو إظهار الخرق توصّلا إلى حيلة، والمِخْرَاق : شيء يلعب به، كأنّه يخرق لإظهار الشیء بخلافه، وخَرِقَ الغزال «3» : إذا لم يحسن أن يعدو لخرقه . ( خ ر ق ) الخرق ( ض) کسی چیز کو بلا سوچے سمجھے بگاڑنے کے لئے پھا ڑ ڈالنا ۔ قرآن میں ہے :۔ أَخَرَقْتَها لِتُغْرِقَ أَهْلَها[ الكهف/ 71] کیا آپ نے اسکو اس لئے پھاڑا ہے کہ مسافروں کو غرق کردیں ۔ خرق خلق کی ضد ہے ۔ جس کے معنی اندازہ کے مطابق خوش اسلوبی سے کسی چیز کو بنانا کے ہیں ۔ اور خرق کے معنی کسی چیز کو بےقاعدگی سے پھاڑ ڈالنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَناتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 100] اور لے سمجھے ( جھوٹ بہتان ) اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بنا گھڑی ہیں ۔ یعنی بےسوچے سمجھے یہ بات کہتے ہیں ۔ پھر معنی قطع کے اعتبار سے کہا جاتا ہے : خرق الثوب وخرقہ کپڑے کو پھاڑ ڈالا خرق المف اور ریگستان طے کئے اخترق الریح ہوا کا تیز چلنا ۔ الخرق والخریق خاص کر کشادہ بیابان کو کہاجاتا ہے اس لئے کہ اس میں ہوائیں تیزی سے چلتی ہیں اور یا اس لئے ک وہ وسیع ریگستان کی صورت میں پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔ الخرق ( خاص ) کپڑے میں سوراخ اور کان میں کشادہ سوراخ ۔ صبی اخرق امراۃ خرقاء جس کے کان میں کشادہ چھید ہو اور آیت کریمہ :۔ إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ [ الإسراء/ 37] کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک یہ کہ تو زمین کو طے نہیں کرسکے گا ۔ یا یہ کہ تو زمین کو پانے پاؤں سے پھاڑ نہیں ڈالے گا ۔ یہ دوسرا معنی خرق فی الاذن سے ماخوذ ہے اور بےسوچے سمجھے کام کرنے کے اعتبار سے احمق اور نادان شخص کو اخرق وخرق کہاجاتا ہے اس کی مونث خرقاء ہے ۔ اور تند ہوا کو بھی خرقاء کہہ دیا جاتا ہے ۔ اور تند ہوا کو بھی خرقاء کہہ دیا جاتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے (108) مادخل الخرق فی شئی الا شانہ جس چیز میں نادانی کا عمل دخل ہو وہ عیب ناک ہوجاتی ہے اور خرق سے مخرقۃ کا لفظ لیا گیا ہے جس کے معنی کسی کام میں حیلہ جوئی کے لئے بےوقوفی کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ المخراق کپڑے کا کوڑا جس سے بچے کھلیتے ہیں گویا اسے بھی کسی چیز کو واقع کے خلاف ظاہر کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے ۔ خرق الغزال ہر ن کا نادانی کی وجہ سے دوڑ نہ سکنا ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ وصف الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ : الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] ( و ص) الوصف کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔
Top