Mufradat-ul-Quran - Al-Qalam : 49
لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ مَذْمُوْمٌ
لَوْلَآ : اگر نہ ہوتی یہ بات اَنْ تَدٰرَكَهٗ : کہ پالیا اس کو نِعْمَةٌ : ایک نعمت نے مِّنْ رَّبِّهٖ : اس کے رب کی طرف سے لَنُبِذَ : البتہ پھینک دیا جاتا بِالْعَرَآءِ : چٹیل میدان میں وَهُوَ : اور وہ مَذْمُوْمٌ : مذموم ہوتا
اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی انکی آوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیے جاتے اور ان کا حال ابتر ہوجاتا
لَوْلَآ اَنْ تَدٰرَكَہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَاۗءِ وَہُوَمَذْمُوْمٌ۝ 49 «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ درك الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ، والدّرك أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ کالدّرک في البیع قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] ، أي : تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . والتَّدَارُكُ في الإغاثة والنّعمة أكثر، نحو قوله تعالی: لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] ، وقوله : حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] ، أي : لحق کلّ بالآخر . وقال : بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] ، أي : تدارک، فأدغمت التاء في الدال، وتوصّل إلى السکون بألف الوصل، وعلی ذلک قوله تعالی: حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها [ الأعراف/ 38] ، ونحوه : اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] ، واطَّيَّرْنا بِكَ [ النمل/ 47] ، وقرئ : بل أدرک علمهم في الآخرة وقال الحسن : معناه جهلوا أمر الآخرة وحقیقته انتهى علمهم في لحوق الآخرة فجهلوها . وقیل معناه : بل يدرک علمهم ذلک في الآخرة، أي : إذا حصلوا في الآخرة، لأنّ ما يكون ظنونا في الدّنيا، فهو في الآخرة يقين . ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ التدارک ۔ ( پالینا ) یہ زیادہ تر نعمت اور رسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ تَدارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ [ القلم/ 49] اگر تمہارے پروردگار کی مہر بانی ان کی یاوری نہ کرتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذَا ادَّارَكُوا فِيها جَمِيعاً [ الأعراف/ 38] یہاں تک کہ جب سب اس میں داخل ہوجائیں گے کے معنی یہ ہیں کہ جب سب کے سب اس میں ایک دوسرے کو آملیں گے ۔ پس اصل میں تدارکوا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ [ النمل/ 66] بلکہ آخرت کے بارے میں انکا علم منتہی ہوچکا ہے ۔ میں ادراک اصل میں تدارک ہے تاء کو دال میں ادغام کرنے کے بعد ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے جس طرح کہ آیات : ۔ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة/ 38] میں ہے ایک قراءت میں ہے ۔ حسن (رح) نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ امور آخرت سے سراسر فاعل ہیں مگر اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ آخرت کو پالینے سے انکا علم بنتی ہوچکا ہے اس بنا پر وہ اس سے جاہل اور بیخبر ہیں ۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے کہ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی حقیقت معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزوں معلوم ہو جائیگی کیونکہ دنیا میں جو چیزیں محض ظنون نظر آتی ہیں آخرت میں ان کے متعلق یقین حاصل ہوجائے گا ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ نبذ النَّبْذُ : إلقاء الشیء وطرحه لقلّة الاعتداد به، ولذلک يقال : نَبَذْتُهُ نَبْذَ النَّعْل الخَلِق، قال تعالی: لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة/ 4] ، فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران/ 187] لقلّة اعتدادهم به، وقال : نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة/ 100] أي : طرحوه لقلّة اعتدادهم به، وقال : فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص/ 40] ، فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات/ 145] ، لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم/ 49] ، وقوله : فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] فمعناه : ألق إليهم السّلم، واستعمال النّبذ في ذلک کاستعمال الإلقاء کقوله : فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل/ 86] ، وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] تنبيها أن لا يؤكّد العقد معهم بل حقّهم أن يطرح ذلک إليهم طرحا مستحثّا به علی سبیل المجاملة، وأن يراعيهم حسب مراعاتهم له، ويعاهدهم علی قدر ما عاهدوه، وَانْتَبَذَ فلان : اعتزل اعتزال من لا يقلّ مبالاته بنفسه فيما بين الناس . قال تعالی: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم/ 22] وقعد نَبْذَةً ونُبْذَةً. أي : ناحية معتزلة، وصبيّ مَنْبُوذٌ ونَبِيذٌ کقولک : ملقوط ولقیط، لکن يقال : منبوذ اعتبارا بمن طرحه، وملقوط ولقیط اعتبارا بمن تناوله، والنَّبِيذُ : التّمرُ والزّبيبُ الملقَى مع الماء في الإناء، ثمّ صار اسما للشّراب المخصوص . ( ن ب ذ) النبذ کے معنی کسی چیز کو در خود اعتنا نہ سمجھ کر پھینک دینے کے ہیں اسی سے محاورہ مشہور ہے ۔ نبذ تہ نبذلنعل الخلق میں نے اسے پرانے جو تا کی طرح پھینک دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ [ الهمزة/ 4] وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائیگا ۔ فَنَبَذُوهُ وَراءَ ظُهُورِهِمْ [ آل عمران/ 187] تو انہونے اسے پس پشت پھینک دیا ۔ یعنی انہوں نے اسے قابل التفات نہ سمجھا نیز فرمایا ۔ نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ [ البقرة/ 100] تو ان بیس ایک فریق نے اس کو بےقدر چیز کی طرح پھینک دیا فَأَخَذْناهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْناهُمْ فِي الْيَمِ [ القصص/ 40] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکر کو پکڑ لیا ۔ اور دریا میں ڈال دیا ۔ فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ [ الصافات/ 145] پھر ہم نے ان کو فراخ میدان میں ڈال دیا ۔ لَنُبِذَ بِالْعَراءِ [ القلم/ 49] تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے ۔ تو ان کا عہد انہی کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو میں کے معنی یہ ہیں کہ معاہدہ صلح سے دستبر ہونے کے لئے لہذا یہاں معاہدہ صلح ست دستبر دار ہونے کے لئے مجازا نبذا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کے کلام کو مسترد کردیں گے اور ان سے نہیں کے کہ تم جھوٹے ہو اور اس دن خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے میں قول ( اور متکلم القاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت ۔ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكاذِبُونَ [ النحل/ 86] فانبذا الخ میں متنبہ کیا ہے کہ اس صورت میں ان کے معاہدہ کو مزید مؤکد نہ کیا جائے بلکہ حسن معاملہ سے اسے فسخ کردیا جائے اور ان کے رویہ کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے یعنی جب تک وہ معاہدہ کو قائم رکھیں اسکا احترام کیا جائے فانتبذ فلان کے معنی اس شخص کی طرح یکسو ہوجانے کے ہیں جو اپنے آپ کو ناقابل اعتبار سمجھاتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَکاناً قَصِيًّا[ مریم/ 22] اور وہ اس بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں ۔ اور قعد نبذ ۃ کے معنی یکسو ہوکر بیٹھ جانے کے ہیں اور راستہ میں پڑے ہوئے بچے کو صبی منبوذ ونبیذ کہتے ہیں جیسا کہ اسئ ملقوط یا لقیط کہا جاتا ہے ۔ لیکن اس لحاظ سے کہ کسی نے اسے پھینک دیا ہے اسے منبوذ کہا جاتا ہے اور اٹھائے جانے کے لحاظ سے لقیط کہا جاتا ہے ۔ النبذ اصل میں انگور یا کجھور کو کہتے ہیں ۔ جو پانی میں ملائی گئی ہو ۔ پھر خاص قسم کی شراب پر بولا جاتا ہے ۔ عری وعَرَاهُ وَاعْتَرَاهُ : قصد عُرَاهُ. قال تعالی: إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] . يقال : عَرِيَ من ثوبه يَعْرَى فهو عَارٍ وعُرْيَانٌ. قال تعالی: إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيها وَلا تَعْرى[ طه/ 118] ، وهو عَرُوٌّ من الذّنب . أي : عَارٍ ، وأَخَذَهُ عُرَوَاءُ أي : رِعْدَةٌ تعرض من العُرْيِ ، ومَعَارِي الإنسانِ : الأعضاءُ التي من شأنها أن تُعْرَى کالوجه والید والرّجل، وفلانٌ حَسَنُ المَعْرَى، کقولک : حسن المحسر والمجرّد، وَالعَرَاءُ : مکان لا سترة به، قال : فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ وَهُوَ سَقِيمٌ [ الصافات/ 145] ، والعَرَا مقصورٌ: النّاحيةُ «6» ، وعَرَاهُ وَاعْتَرَاهُ : قصد عُرَاهُ. قال تعالی: إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] . والعُرْوَةُ : ما يتعلّق به من عُرَاهُ. أي : ناحیته . قال تعالی: فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى[ البقرة/ 256] ، وذلک علی سبیل التّمثیل . والعُرْوَةُ أيضا : شجرةٌ يتعلّق بها الإبل، ويقال لها : عُرْوَةٌ وعَلْقَةٌ. والعَرِيُّ والعَرِيَّةُ : ما يَعْرُو من الرّيح الباردة، والنّخلةُ العَرِيَّةُ : ما يُعْرَى عن البیع ويعزل، وقیل : هي التي يُعْرِيهَا صاحبها محتاجا، فجعل ثمرتها له ورخّص أن يبتاع بتمر «1» لموضع الحاجة، وقیل : هي النّخلة للرّجل وسط نخیل کثيرة لغیره، فيتأذّى به صاحب الکثير «2» ، فرخّص له أن يبتاع ثمرته بتمر، والجمیع العَرَايَا . «ورخّص رسول اللہ صلّى اللہ عليه وسلم في بيع العَرَايَا» ( ع ری ) عری عری من ثوبہ یعریٰ ننگا ہونا چناچہ برہنہ اور ننگے شخص کو عاروعریان کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيها وَلا تَعْرى[ طه/ 118] یہاں تم نہ بھولے رہوگے اور نہ ننگے ۔ ھو عرومن الذنب : وہ گناہ سے عاری ہے اخذہ عرواء : برہنگی کی وجہ سے اس پر کپکپی طاری ہوگئی ۔ اور انسان کے ان اعضاء کو جو عام طورپ ننگے رہتے ہیں جیسے چہرہ ہاتھ اور پاؤں المعاری کہاجاتا ہے ۔ چانچہ محاورہ ہے ۔ فلان حسن المعریٰ فلاں کے ننگے اعضاء خوبصورت ہیں ۔ جیسا کہ حسن المحسن والمجرد کا محاورہ ہے العراء کھلی جگہ جہاں کوئی چیز آڑ کے لئے نہ ہو جیسے فرمایا : فَنَبَذْناهُ بِالْعَراءِ وَهُوَ سَقِيمٌ [ الصافات/ 145] پھر ہم نے اسے جبکہ وہ بیمار تھے کھلے میدان میں ڈال دیا ۔ العریٰ ( اسم مقصود ) کنارہ اور جانب کو کہتے ہیں اور عراہ واعتراہ اس کے سامنے آیا اس کی جانب قصد کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے تجھ پر مصیبت ڈال دی ہے ۔ العروۃ ۔ ہر وہ چیز جسے پکڑ کر کوئی لٹک جائے اور آیت کریمہ : فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى[ البقرة/ 256] تو اس نے مضبوط حلقہ ہاتھ میں پکڑا ۔ میں ( ایمان باللہ کو ) بطور تمثیل کے ، ، مضبوط حلقہ ، ، ، سے تعبیر فرمایا ہے ۔ نیز عروۃ یا علقہ ایک قسم ( کی ) خار دار جھاڑی یا پیلو کی قسم ) کے درخت کو بھی کہتے ہیں جو اونٹوں کے لئے آخری سہارا ہوتا ہے العری والعریۃ سرد ہوا انسان کو لگ جاتی ہے ۔ نیز العریۃ کھجور کا وہ درخت جو بیع سے مستثنیٰ کیا گیا ہو ۔ بعض کہتے ہیں کہ عریۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جس کا پھل اس کے مالک نے کسی محتاج کو ہبہ کردیا ہو شرعا اس درخت کے پھل کو خشک کھجوروں کے عوض بیچنا جائز ہے بعض کہتے ہیں کہ عربیۃ کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جو کسی آدمی کے باغ میں دوسرے کی ملکیت ہو اور اس کے آنے جانے سے باغ کے مالک کو تکلیف ہوتی ہو تو شریعت نے خشک کھجوروں کے عوض ا س کا پھل خریدنے کی اجازت دی ہے ۔ اس کی جمع عرایا ہے اور آنحضرت نے بیع عرایا کی رخصت دی ہے ۔ ذم يقال : ذَمَمْتُهُ أَذُمُّهُ ذَمّاً ، فهو مَذْمُومٌ وذَمِيمٌ ، قال تعالی: مَذْمُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 18] ، وقیل : ذَمَّتُّهُ أَذُمُّهُ علی قلب إحدی المیمین تاء . والذِّمَام : ما يذّمّ الرّجل علی إضاعته من عهد، وکذلک المَذَمَّةُ والمَذِمَّة . وقیل : لي مَذَمَّة فلا تهتكها، وأذهب مَذَمَّتَهُمْ بشیء، أي : أعطهم شيئا لما لهم من الذّمام . وأَذَمَّ بکذا : أضاع ذمامه، ورجل مُذِمٌّ: لا حراک «2» به، وبئر ذَمَّةٌ: قلیلة الماء، قال الشاعر : 170- وتری الذّميم علی مراسنهم ... يوم الهياج کمازن الجثل «3» الذَّمِيم : شبه بثور صغار . يقال : أصله الذنة والذنین . ( ذ م م ) ذمتہ ( ن) ذما کے معنی مذمت کرنے کے ہیں ۔ اس سے صیغہ صفت مفعول مذموم وذمیم آتا ، قرآن میں ہے : مَذْمُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء/ 18] نفرین سنکر اور ( درگاہ خدا سے ) راندہ ہوکر ۔ اور بعض ذممتہ صیغہ واحد متکلم میں دوسری میم کا ناد ست بدل کر ذمتہ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ الذمام ۔ وہ عہد وغیرہ جس کا ضائع کرنا باعث مذمت ہو یہی معنی ذمتہ ومذمتہ کے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ میرے عہد یا حرمت کا پاس کیجئے توڑیئے نہیں یعنی ان کے حق احترام کا بدلہ اتاریئے ۔ اذم بکذا ۔ اس کی حرمت کو ضائع کردیا ۔ تہاون سے کام لیا ۔ رجل مذم بےحس و حرکت بئر ذمتہ کم پانی والا کنواں چیونٹی کے انڈوں کی طرح سفید سا مادہ جو ناک پر ظاہر ہوجاتا ہے اسے الذمیم کہا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔
Top