Mufradat-ul-Quran - Al-A'raaf : 152
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ ذِلَّةٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا سَيَنَالُهُمْ : عنقریب انہیں پہنچے گا غَضَبٌ : غضب مِّنْ رَّبِّهِمْ : ان کے رب کا وَذِلَّةٌ : اور ذلت فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم سزا دیتے ہیں الْمُفْتَرِيْنَ : بہتان باندھنے والے
(خدا نے فرمایا کہ) جن لوگوں نے بچھڑے کو (معبود) بنا لیا تھا ان پر پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور دنیا کی زندگی میں ذلت (نصیب ہوگی) اور ہم افتراء پردازوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوا الْعِـجْلَ سَيَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَذِلَّۃٌ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ 0 ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُفْتَرِيْنَ۝ 152 أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ عِجْلُ ( بچهڑا) : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ. العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔ نيل النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا : تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر : جزعت ولیس ذلک بالنّوال قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ [ الحج/ 37] . ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔ غضب الغَضَبُ : ثوران دم القلب إرادة الانتقام، ولذلک قال عليه السلام : «اتّقوا الغَضَبَ فإنّه جمرة توقد في قلب ابن آدم، ألم تروا إلى انتفاخ أوداجه وحمرة عينيه» «2» ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به فالمراد به الانتقام دون غيره : قال فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] ، وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] ، وقال : وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] ، غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] ، وقوله : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] ، قيل : هم اليهود «3» . والغَضْبَةُ کالصّخرة، والغَضُوبُ : الكثير الغضب . وتوصف به الحيّة والنّاقة الضجور، وقیل : فلان غُضُبَّةٌ: سریع الغضب «4» ، وحكي أنّه يقال : غَضِبْتُ لفلان : إذا کان حيّا وغَضِبْتُ به إذا کان ميّتا «5» . ( غ ض ب ) الغضب انتقام کے لئے دل میں خون کا جوش مارنا اسی لئے آنحضرت نے فرمایا ہے اتقو ا الغضب فانہ جمرۃ توقدئی قلب ابن ادم الم ترو الی امتقاخ اوداجہ وحمرتۃ عینیہ کہ غصہ سے بچو بیشک وہ انسان کے دل میں دہکتے ہوئے انگارہ کی طرح ہے تم اس کی رگوں کے پھولنے اور آنکھوں کے سرخ ہوجانے کو نہیں دیکھتے لیکن غضب الہیٰ سے مراد انتقام ( اور عذاب ) ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَباؤُ بِغَضَبٍ عَلى غَضَبٍ [ البقرة/ 90] تو وہ اس کے ) غضب بالائے غضب میں مبتلا ہوگئے ۔ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 112] اور وہ خدا کے غضب ہی گرمحتار ہوگئے ۔ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي [ طه/ 81] اور جس پر میرا غصہ نازل ہوا ۔ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المجادلة/ 14] اور خدا اس پر غضب ناک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ [ الفاتحة/ 7] نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا ۔ میں بعض نے کہا کہ مغضوب علیھم سے یہود مراد ہیں اور غضبۃ کے معنی سخت چٹان کے ہیں ۔ المغضوب بہت زیادہ غصے ہونے والا یہ سانپ اور تزر مزاج اونٹنی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فلاں غضبۃ کے معنی ہیں فلاں بہت جلد غصے ہونے والا ہے ۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ غضیت لفلان کے معنی کسی زندہ شخص کی حمایت میں ناراض ہونا ہیں اور غضبت بہ کے معنی کیس مردہ شخص کی حمایت کے لئے غضب ناک ہونا ۔ ذلت يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، (ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔
Top