Mufradat-ul-Quran - Al-Insaan : 17
وَ یُسْقَوْنَ فِیْهَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِیْلًاۚ
وَيُسْقَوْنَ : اور انہیں پلایا جائیگا فِيْهَا كَاْسًا : اس میں ایسا جام كَانَ مِزَاجُهَا : ہوگی اس کی آمیزش زَنْجَبِيْلًا : سونٹھ
اور وہاں ان کو ایسے مشروب پلائے جائیں گے جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی
وَيُسْقَوْنَ فِيْہَا كَاْسًا كَانَ مِزَاجُہَا زَنْجَبِيْلًا۝ 17 ۚ سقی السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ : أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ( س ق ی ) السقی والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔ كأس قال تعالی: مِنْ كَأْسٍ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] ، كَأْساً كانَ مِزاجُها زَنْجَبِيلًا [ الإنسان/ 17] والْكَأْسُ : الإناء بما فيه من الشراب، وسمّي كلّ واحد منهما بانفراده كأسا . يقال : شربت كَأْساً ، وكَأْسٌ طيّبة يعني بها الشَّرَابَ. قال تعالی: وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة/ 18] . وكَاسَتِ الناقة تَكُوسُ : إذا مشت علی ثلاثة قوائم، والکيس : جودة القریحة، وأَكْأَسَ الرّجلُ وأكيس : إذا ولد أولادا أكياسا، وسمّي الغدر كيسان تصوّرا أنه ضرب من استعمال الكيس، أو لأنّ كيسان کان رجلا عرف بالغدر، ثمّ سمّي كلّ غادر به كما أنّ الهالكيّ کان حدّادا عرف بالحدادة ثمّ سمّي كلّ حدّاد هالكيّا ( ک ء س ) الک اس ۔ پینے کا برتن جب کہ اس میں پینے کی چیز موجود ہو ۔ قرآن میں ہے : مِنْ كَأْسٍ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] اور ایسی شراب نوش جان کریں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ اور کبھی کا اطلاق خالی پیالہ صرف سے پینے کی چیز پر ہوتا ہے ۔ مثلا ۔ شربت کا سا ۔ میں نے شراب کا پیالہ پیا ۔ کاس طیبہ عمدہ شراب ۔ قرآن میں ہے : وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة/ 18] اور صاف شراب کے گلاس کاست الناقۃ تکوس ۔ اونٹنی کا تین پاؤں پر چلنا اور الکیس کے معنی دانائی اور زیر کی کے ہیں اور اکاس الرجل واکیس کے معنی عدر یعنی بد عہدی بھی آتے ہیں کیونکہ اس میں زیر کی سے کام لیا جاتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ کیسان نامی ایک شخص تھا جو بےوفائی میں ضرب المثل تھا پھر ہر غدار کو کیسان کہاجانے جیسا کہ ھال کی اصل میں ایک مشہور آہنگر کا نام تھا پھر ہر خدا د یعنی آہنگر پر ھال کی کا لفظ بولا جانے لگا ہے ۔ مزج مَزَجَ الشّرابَ : خلطه، والمِزَاجُ : ما يمزج به . قال تعالی: كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] ، وَمِزاجُهُ مِنْ تَسْنِيمٍ [ المطففین/ 27] ، كانَ مِزاجُها زَنْجَبِيلًا [ الإنسان/ 17] . ( م ز ج ) مزج الشراب کے معنی شراب میں کوئی چیز ملا دیناکے ہیں ۔ اور جو چیز شراب میں ملائی اسے مزاج کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ وَمِزاجُهُ مِنْ تَسْنِيمٍ [ المطففین/ 27] اور اس میں تسنیم کے پانی کی آمیزش ہوگی ۔ كانَ مِزاجُها زَنْجَبِيلًا [ الإنسان/ 17] جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی ۔ ( زنجبیلا) اسم للنبات المعروف۔ ولیس کزنجبیل الدنیا۔ وزنه فعللیل . زنجبیل : الزَّنْجَبِيل : مِمَّا يَنْبُتُ فِي بِلَادِ الْعَرَبِ بأَرض عُمَان، وَهُوَ عُرُوقٌ تَسْرِي فِي الأَرض، وَنَبَاتُهُ شَبِيهٌ بِنَبَاتِ الرَّاسَن وَلَيْسَ مِنْهُ شَيْءٌ بَرِّيًّا، وَلَيْسَ بِشَجَرٍ ، يُؤْكَلُ رطْباً كَمَا يُؤْكَلُ البَقْلُ ، وَيُسْتَعْمَلُ يَابِسًا، وأَجوده مَا يُؤْتَى بِهِ مِنَ الزِّنْج وَبِلَادِ الصِّين، وَزَعَمَ قَوْمٌ أَن الخَمْر يُسَمَّى زَنْجَبيلًا؛ قَالَ : وزَنْجَبِيل عاتِق مُطَيَّب وَقِيلَ : الزَّنْجَبِيل الْعُودُ الحِرِّيف الَّذِي يَحْذِي اللِّسَانَ. وَفِي التَّنْزِيلِ الْعَزِيزِ فِي خَمْر الجَنَّة : كانَ مِزاجُها زَنْجَبِيلًا . وَالْعَرَبُ تَصِفُ الزَّنْجَبِيل بِالطِّيبِ وَهُوَ مُسْتَطَابٌ عِنْدَهُمْ جِدًّا؛ قَالَ الأَعشی يَذْكُرُ طَعْمَ رِيقِ جَارِيَةٍ : كأَن القَرنْفُلَ والزَّنْجَبِيلَ ... بَاتَا بِفيها، وأَرْياً مَشُوراقَالَ : فَجَائِزٌ أَن يَكُونَ الزَّنْجَبِيل فِي خَمْر الجَنَّة، وَجَائِزٌ أَن يَكُونَ مِزَاجَها وَلَا غَائِلَةَ لَهُ ، وَجَائِزٌ أَن يَكُونَ اسْماً للعَين الَّتِي يُؤْخَذُ مِنْهَا هَذَا الخَمْر، وَاسْمُهُ السَّلْسَبِيل أَيضاً. ( لسان العرب)
Top