Mufradat-ul-Quran - Al-Insaan : 4
اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَاۡ وَ اَغْلٰلًا وَّ سَعِیْرًا
اِنَّآ : بیشک ہم اَعْتَدْنَا : ہم نے تیار کیا لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لئے سَلٰسِلَا۟ : زنجیریں وَاَغْلٰلًا : اور طوق وَّسَعِيْرًا : اور دہکتی آگ
ہم نے کافروں کیلئے زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے
اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ سَلٰسِلَا۟ وَاَغْلٰلًا وَّسَعِيْرًا۝ 4 عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ سل سَلُّ الشیء من الشیء : نزعه، كسلّ السّيف من الغمد، وسَلُّ الشیء من البیت علی سبیل السّرقة، وسَلُّ الولد من الأب، ومنه قيل للولد : سَلِيلٌ. قال تعالی: يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، وقوله تعالی: مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ [ المؤمنون/ 12] ، أي : من الصّفو الذي يُسَلُّ من الأرض، وقیل : السُّلَالَةُ كناية عن النطفة تصوّر دونه صفو ما يحصل منه . والسُّلُّ «1» : مرض ينزع به اللّحم والقوّة، وقد أَسَلَّهُ الله، وقوله عليه السلام : «لا إِسْلَالَ ولا إغلال» «2» . وتَسَلْسَلَ الشیء اضطرب، كأنه تصوّر منه تَسَلُّلٌ متردّد، فردّد لفظه تنبيها علی تردّد معناه، ومنه السِّلْسِلَةُ ، قال تعالی: فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ، وقال تعالی: سَلاسِلَ وَأَغْلالًا وَسَعِيراً [ الإنسان/ 4] ، وقال : وَالسَّلاسِلُ يُسْحَبُونَ [ غافر/ 71] ، وروي : «يا عجبا لقوم يقادون إلى الجنّة بالسّلاسل» «3» . وماء سَلْسَلٌ: متردّد في مقرّه حتی صفا، قال الشاعر :۔ أشهى إليّ من الرّحيق السَّلْسَلِ «4» وقوله تعالی: سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، أي : سهلا لذیذا سلسا حدید الجرية، وقیل : هو اسم عين في الجنّة، وذکر بعضهم أنّ ذلک مركّب من قولهم : سل سبیلا «5» ، نحو : الحوقلةوالبسملة ونحوهما من الألفاظ المرکّبة، وقیل : بل هو اسم لكلّ عين سریع الجرية، وأسلة اللّسان : الطّرف الرّقيق . ( س ل ل ) سل ( ن ) الشی من الشی کے معنی ایک چیز کے دوسری سے کھینچ لینے کے ہیں جیسے تلوار کا نیام سے سونتنا ۔ یا گھر سے کوئی چیز چوری کھسکا لینا ۔ قرآن میں ہے ۔ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ۔ اسی مناسبت سے باپ کے نطفہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے : ۔ جیسے فرمایا :۔ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ [ المؤمنون/ 12] خلاصے سے ( یعنی ) حقیر پانی سے پیدا کی ۔ یعنی وہ ہر جوہر جو غذا کا خلاصہ ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں بطور کنایہ نطفہ مراد ہے ۔ اور نطفہ پر اس کا اطلاق اس جوہر کے لحاظ سے ہے جس سے نطفہ بنتا ہے ۔ السل : سل کی بیماری کیونکہ یہ انسان سے گوشت اور قوت کو کھینچ لیتی ہے اور اسلہ اللہ کے معنی ہیں " اللہ تعالیٰ نے اسے سل کی بیماری میں مبتلا کردیا " ۔ حدیث میں ہے لا اسلال ولا اغلال کہ چوری اور خیانت نہیں ہے ۔ تسلسل الشئی کے معنی کسی چیز کے مضطرب ہونے کے ہیں گویا اس میں بار بار کھسک جانے کا تصور کر کے لفظ کو مکرر کردیا ہے تاکہ تکرار لفظ تکرار معنی پر دلالت کرے اسی سے سلسلۃ ہے جس کے معنی زنجیر کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُها سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32]( پھر ) زنجیر سے جس کی ناپ ستر گز ہے ( جکڑ دو ) ۔ سلسلہ کی جمع سلاسل آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَلاسِلَ وَأَغْلالًا وَسَعِيراً [ الإنسان/ 4] زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ ( تیار کر رکھی ہے ) وَالسَّلاسِلُ يُسْحَبُونَ [ غافر/ 71] اور زنجیر میں ہوں گی اور گھسیٹے جائیں گے ۔ ایک حدیث میں ہے «يا عجبا لقوم يقادون إلى الجنّة بالسّلاسل» اس قوم پر تعجب ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف کھینچنے جا رہے ہیں ۔ اور ماء سلسل اس پانی کو کہتے ہیں جو اپنی قرار گاہ میں مضطرب ہو کر صاف ہوجائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 232 ) أشهى إليّ من الرّحيق السَّلْسَلِ اور آیت سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] میں سلسبیل کے معنی تیزی سے بہتے ہوئے صاف لذیذ اور خوشگوار پانی کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ جنت کے ایک چشمہ کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ سل اور سبیل سے بنا ہے اور حوقلۃ و بسملۃ وغیرہ کی طرح الفاظ مرکبہ کے قبیل سے ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ ہر تیز رو چشمے کو سلسبیل کہا جاتا ہے ۔ اور زبان کے باریک سرے کو اسلۃ اللسان کہتے ہیں ۔ غل الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له : الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] ( غ ل ل ) الغلل کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔ سعر السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ : حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار . ( س ع ر ) السعر کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء/ 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير/ 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک/ 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر/ 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔
Top