Mufradat-ul-Quran - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سٹیاں اور تالیاں بجانے سوا کچھ نہ تھی۔ تو تم جو کفر کرتے تھے اب اس کے بدلے عذاب (کا مزہ) چکھو۔
وَمَا كَانَ صَلَاتُہُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَۃً۝ 0 ۭ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۝ 35 صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ مكاء مكا الطّير يمكو مُكَاءً : صفر، قال تعالی: وَما کانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكاءً وَتَصْدِيَةً [ الأنفال/ 35] تنبيها أن ذلک منهم جار مجری مکاء الطّير في قلّة الغناء، والمُكَّاء : طائر، ومَكَت استه : صوّتت ( م ک و ) مکا لطیر یمکو ا مکاء کے معنی پرند کے سیٹی بجانے کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ ۔ وَما کانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكاءً وَتَصْدِيَةً [ الأنفال/ 35] میں ان کی نماز کو مکاء کہ کر متنبہ کی ہے کہ وہ نماز بےروح ہونے کے اعتبار سے پرندوں کی سیٹی کے بمنزلہ ہے اور مکاء ایک پرند کا نام ہے ۔ سکت استہ گو زمار نا ۔ صدی الصَّدَى: صوت يرجع إليك من کلّ مکان صقیل، والتَّصْدِيَةُ : كلّ صوت يجري مجری الصَّدَى في أن لا غناء فيه، وقوله : وَما کانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكاءً وَتَصْدِيَةً [ الأنفال/ 35] ، أي : غناء ما يوردونه غناء الصّدى، ومکاء الطّير . والتَّصَدِّي : أن يقابل الشیء مقابلة الصَّدَى، أي : الصّوت الرّاجع من الجبل، قال : أَمَّا مَنِ اسْتَغْنى فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى [ عبس/ 5- 6] ، والصَّدَى يقال لذکر البوم وللدّماغ لکون الدّماغ متصوّرا بصورة الصّدى، ولهذا يسمّى: هامة، وقولهم : أصمّ اللہ صَدَاهُ فدعاء عليه بالخرس، والمعنی: لا جعل اللہ له صوتا حتّى لا يكون له صدی يرجع إليه بصوته، وقد يقال للعطش : صَدَى، يقال : رجل صَدْيَانٌ ، وامرأة صَدْيَا، وصَادِيَةٌ. ( ص د ی ) الصدیٰ ۔ صدائے باز گشت جو کسی شفاف مکان سے ٹکرا کر واپس آئے اور التصدیہ ( تفعیل ) ہر اس آواز کو کہتے ہیں جو صدی کی طرح ہو یعنی جس کا کوئی مفہوم نہ ہو ۔ اور آیت : ۔ وَما کانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكاءً وَتَصْدِيَةً [ الأنفال/ 35] اور لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاسسیٹیاں اور تالیان بجانے کے سوا کچھ نہ تھی ۔ میں بتایا ہے کہ ان کی نماز بےمعنی ہونے میں صدی یا پرند کی چہچہا ہٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔ التصدی صدائے باز گشت کی طرح کسی چیز کے درپے ہونا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا مَنِ اسْتَغْنى فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى[ عبس/ 5- 6] جو پرواہ انہیں کرتا اس کی طرف تم توجہ کرتے ہو ۔ الصدیٰ کے معنی بو مہ یا دماغ کے ہیں کیونکہ دماغ بھی بومہ کی شکل پر ہوتا ہے اسی لئے اس کو ہامہ بھی کہا جاتا ہے مشہور محاورہ ہے ۔ ( مثل ) اصم اللہ صداہ : خدا اسے ہلاک کرے یعنی اس میں آواز ہی نہ رہے حتیٰ کہ اس کی صدائے باز گشت آئے ۔ صد ی پیاس صد یان پیا سا آدمی امراءۃ صد یاء وصادیۃ : پیاسی عورت ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
Top