Mufradat-ul-Quran - Al-Anfaal : 38
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ١ۚ وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : ان سے جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : اگر يَّنْتَهُوْا : وہ باز آجائیں يُغْفَرْ : معاف کردیا جائے لَهُمْ : انہیں جو مَّا : جو قَدْ سَلَفَ : گزر چکا وَاِنْ : اور اگر يَّعُوْدُوْا : پھر وہی کریں فَقَدْ : تو تحقیق مَضَتْ : گزر چکی ہے سُنَّةُ : سنت (روش) الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
(اے پیغمبر ﷺ کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائیگا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا۔
قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَہُوْا يُغْفَرْ لَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ۝ 0 ۚ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُـنَّۃُ الْاَوَّلِيْنَ۝ 38 كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ سلف السَّلَفُ : المتقدّم، قال تعالی: فَجَعَلْناهُمْ سَلَفاً وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ [ الزخرف/ 56] ، أي : معتبرا متقدّما، وقال تعالی: فَلَهُ ما سَلَفَ [ البقرة/ 275] ، أي : يتجافی عمّا تقدّم من ذنبه، وکذا قوله : وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا ما قَدْ سَلَفَ [ النساء/ 23] ، أي : ما تقدّم من فعلکم، فذلک متجافی عنه، فالاستثناء عن الإثم لا عن جواز الفعل، ولفلان سَلَفٌ كريم، أي : آباء متقدّمون، جمعه أَسْلَافٌ ، وسُلُوفٌ. والسَّالِفَةُ صفحة العنق، والسَّلَفُ : ما قدّم من الثّمن علی المبیع، والسَّالِفَةُ والسُّلَافُ : المتقدّمون في حرب، أو سفر، وسُلَافَةُ الخمر : ما بقي من العصیر، والسُّلْفَةُ : ما يقدّم من الطعام علی القری، يقال : سَلِّفُوا ضيفكم ولهّنوه ( س ل) السلف کے معنی متقدم یعنی پہلے گزر جانے والا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ فَجَعَلْناهُمْ سَلَفاً وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ [ الزخرف/ 56] ان کو گئے گزرے کردیا اور پچھلوں کے لئے عبرت بنا دیا ۔ فَلَهُ ما سَلَفَ [ البقرة/ 275] تو جو پہلے ہوچکا وہ اسکا ۔ یعنی اس کے پہلے گناہ کو معاف کردیا جائے گا ۔ اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی ۔ اس طرح آیت إِلَّا ما قَدْ سَلَفَ [ النساء/ 23] مگر ( جاہلیت میں ) جو ہوچکا ( سو ہوچکا ) میں ما سلف سے مراد یہ ہے کہ جو گناہ اس سے قبل ہوچکے ہیں وہ معاف کردیے جائیں گے ۔ تو یہاں استثناء جواز فعل سے نہیں ہے کہ جو نکاح پہلے ہوچکے ہیں وہ جائز اور مباح ہیں بلکہ یہاں استثناء گناہ سے ہے یعنی اس سے قبل جو نکاح ہوچکے ہیں ان کا گناہ معاف کردیا جائیگا اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی اور لفلان سلف کریم کے معنی ہیں اس کے آباؤ اجداد کریم تھے ۔ سلف کی جمع اسلاف اور سلوف آتی ہے ۔ اور کسی چیز کی پیشگی قیمت ادا کرنے کو بھی سلف کہا جاتا ہے ۔ السالفۃ گردن کے کنارے کو کہتے ہیں اور لڑائی میں ہراول دستہ یا سفر میں قافلہ سے آگے جانے والے لوگوں کو سالفۃ اور سلاف کہا جاتا ہے ۔ سلافۃ الخمر باقی ماندہ عصیرہ ۔ السلفۃ ( ناشتہ ) یعنی وہ طعام جو مہمانی سے پہلے مہمان کو پیش کیا جائے ۔ محاورہ ہے ۔ سَلِّفُوا ضيفكم ولهّنوه : اپنے مہمان کو نکل کھلاؤ ۔ ( س ل ق ) السلق قہر و غلبہ کے ساتھ دست یا زبان درازی کرنا کے ہیں اور اسی سے تسلق علی الحائط ہے جس کے معنی دیوار پھاندنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں گے ۔ محاورہ ہے : سَلَقَ امرأته : اپنی عورت کو زبردستی لٹا کر اس کے ساتھ جماع کیا ۔ (235) ( وإن شئت سلقناک ... وإن شئت علی أربع ) چاہو تو چت لیٹ جاؤ اور چاہو تو پٹ لیٹو ۔ اور سلق کے معنی شلیتے کے ایک حلقے کو دوسرے میں داخل کرنے کے ہیں اور میدہ کی روٹی کو سلیقۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع سلائق آتی ہے اور سلیقۃ بمعنی طبیعت بھی آتا ہے اور سلق کے معنی ہموار اور عمدہ زمین کے ہیں ۔ مضی المُضِيُّ والمَضَاءُ : النّفاذ، ويقال ذلک في الأعيان والأحداث . قال تعالی: وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف/ 8] ، فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال/ 38] . ( م ض ی ) المضی والمضاء کسی چیز کا گذر جانا اور چلے جانا یہ اعیان واحد اث دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف/ 8] اور اگلے لوگوں کی مثال گذر گئی ۔ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال/ 38] رو اگلے لوگوں کی سنت گذر چکی ہے ( وہی ان کے حق میں برقی جائے گی ۔ سنن وتنحّ عن سَنَنِ الطّريق، وسُنَنِهِ وسِنَنِهِ ، فالسُّنَنُ : جمع سُنَّةٍ ، وسُنَّةُ الوجه : طریقته، وسُنَّةُ النّبيّ : طریقته التي کان يتحرّاها، وسُنَّةُ اللہ تعالی: قد تقال لطریقة حکمته، وطریقة طاعته، نحو : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23] ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] ، فتنبيه أنّ فروع الشّرائع۔ وإن اختلفت صورها۔ فالغرض المقصود منها لا يختلف ولا يتبدّل، وهو تطهير النّفس، وترشیحها للوصول إلى ثواب اللہ تعالیٰ وجواره، وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة/ 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» . سنن تنح عن سنن الطریق ( بسین مثلثہ ) راستہ کے کھلے حصہ سے مٹ ج اور ۔ پس سنن کا لفظ سنۃ کی جمع ہے اور سنۃ الوجہ کے معنی دائرہ رد کے ہیں اور سنۃ النبی سے مراد آنحضرت کا وہ طریقہ ہے جسے آپ اختیار فرماتے تھے ۔ اور سنۃ اللہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے جیسے فرمایا : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23]( یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے ۔ تو آیت میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ کہ شرائع کے فروغی احکام کی گو مختلف صورتیں چلی آئی ہیں ۔ لیکن ان سب سے مقصد ایک ہی ہے ۔ یعنی نفس کو پاکر کرنا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب اور اس کا جوار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنا اور یہ مقصد ایسا ہے کہ اس میں اختلاف یا تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور آیت : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔
Top