Mufradat-ul-Quran - Al-Anfaal : 52
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ١ۙ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
كَدَاْبِ : جیسا کہ دستور اٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے كَفَرُوْا : انہوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں کا فَاَخَذَهُمُ : تو انہیں پکڑا اللّٰهُ : اللہ بِذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہوں پر اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَوِيٌّ : قوت والا شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
جیسا حال فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا (ہوا تھا ویسا ہی انکا ہوا کہ) انہوں نے خدا کی آیتوں سے کفر کیا تو خدا نے ان کے گناہوں کی سزا میں ان کو پکڑ لیا۔ بیشک خدا زبردست (اور) سخت عذاب دینے والا ہے۔
كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ۝ 0 ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝ 0 ۭ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ فَاَخَذَہُمُ اللہُ بِذُنُوْبِہِمْ۝ 0 ۭ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝ 52 دأب الدَّأْب : إدامة السّير، دَأَبَ في السّير دَأْباً. قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] ، والدّأب : العادة المستمرّة دائما علی حالة، قال تعالی: كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ، أي : کعادتهم التي يستمرّون عليها . ( د ء ب ) الداب کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ داب السیر دابا ۔ وہ مسلسل چلا ۔ قرآن میں ہے وَسَخّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں ( دن رات ) ایک دستور پر چل رہے ہیں ۔ نیز داب کا لفظ عادۃ مستمرہ پر بھی بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ان کا حال بھی فرعونیوں کا سا ہے یعنی انکی اسی عادت جس پر وہ ہمیشہ چلتے رہے ہیں ۔ آل الآل : مقلوب من الأهل ، ويصغّر علی أهيل إلا أنّه خصّ بالإضافة إلى الأعلام الناطقین دون النکرات، ودون الأزمنة والأمكنة، يقال : آل فلان، ولا يقال : آل رجل ولا آل زمان کذا، أو موضع کذا، ولا يقال : آل الخیاط بل يضاف إلى الأشرف الأفضل، يقال : آل اللہ وآل السلطان . والأهل يضاف إلى الكل، يقال : أهل اللہ وأهل الخیاط، كما يقال : أهل زمن کذا وبلد کذا . وقیل : هو في الأصل اسم الشخص، ويصغّر أُوَيْلًا، ويستعمل فيمن يختص بالإنسان اختصاصا ذاتیا إمّا بقرابة قریبة، أو بموالاة، قال اللہ عزّ وجل : وَآلَ إِبْراهِيمَ وَآلَ عِمْرانَ [ آل عمران/ 33] ، وقال : أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ [ غافر/ 46] . قيل : وآل النبي عليه الصلاة والسلام أقاربه، وقیل : المختصون به من حيث العلم، وذلک أنّ أهل الدین ضربان : - ضرب متخصص بالعلم المتقن والعمل المحکم فيقال لهم : آل النبي وأمته . - وضرب يختصون بالعلم علی سبیل التقلید، يقال لهم : أمة محمد عليه الصلاة والسلام، ولا يقال لهم آله، فكلّ آل للنبيّ أمته ولیس کل أمة له آله . وقیل لجعفر الصادق رضي اللہ عنه : الناس يقولون : المسلمون کلهم آل النبي صلّى اللہ عليه وسلم، فقال : کذبوا وصدقوا، فقیل له : ما معنی ذلك ؟ فقال : کذبوا في أنّ الأمّة کا فتهم آله، وصدقوا في أنهم إذا قاموا بشرائط شریعته آله . وقوله تعالی: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ [ غافر/ 28] أي : من المختصین به وبشریعته، وجعله منهم من حيث النسب أو المسکن، لا من حيث تقدیر القوم أنه علی شریعتهم . ( ا و ل ) الآل ۔ بعض نے کہا ہے کہ آل اصل میں اہل ہے کیونکہ اسکی تصغیر اھیل آتی ہے مگر اس کی اضافت ناطقین انسان میں سے ہمیشہ علم کی طرف ہوتی ہے کسی اسم نکرہ یا زمانہ یا مکان کی طرف اس کی اضافت جائز نہیں ہے اس لئے آل فلاں ( علم ) تو کہہ سکتے ہیں مگر آل رجل ، آل زمان کذا وآل مکان کذا بولنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کیطرف مضاف ہوگا اس لئے آل الخیاط بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ آل اللہ یا آل السلطان کہا جائیگا ۔ مگر اھل کا لفظ مذکورہ بالا میں سے ہر ایک کی طرف مضاف ہوکر آجاتا ہے ۔ چناچہ جس طرح اہل زمن کذا وبلد کذا بولا جاتا ہے اسی طرح اہل اللہ واہل الخیاط بھی کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ، ، آل ، ، دراصل بمعنی شخص ہے اس کی تصغیر اویل آتی ہے اور یہ اس شخص کے متعلق استعمال ہوگا جس کو دوسرے کے ساتھ ذاتی تعلق ہو مگر قریبی رشتہ داری یا تعلق والا ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ { وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ } ( سورة آل عمران 33) خاندان ابراہیم اور خاندان عمران ۔ { أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ } ( سورة غافر 46) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کردو ۔ آل النبی ۔ بعض نے کہا ہے کہ آل النبی سے آنحضرت کے رشتہ دار مراد ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں علم ومعرفت کے اعتبار سے آنحضرت کے ساتھ خصوصی تعلق حاصل ہو ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اہل دین دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جو علم وعمل کے اعتبار سے راسخ اور محکم ہوتے ہیں ان کو آل النبی اور امتہ بھی کہہ سکتے ہیں دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا سراسر تقلیدی ہوتا ہے ان کو امت محمد ﷺ تو کہہ سکتے ہیں مگر آل محمد ﷺ نہیں کہہ سکتے اس سے معلوم ہوا کہ امت اور آل میں عموم وخصوص کی نسبت ہے یعنی ہر آل نبی اسکی امت میں داخل ہے مگر ہر امتی آل نبی نہیں ہوسکتا۔ امام جعفر صادق سے کسی نے دریافت کیا کہ لوگ تمام مسلمانوں کو آل نبی میں داخل سمجھتے ہیں ۔ تو انہوں نے فرمایا یہ صحیح بھی ہے اور غلط تو اس لئے کہ تمام امت آل نبی میں داخل نہیں ہے اور صحیح اسلئے کہ وہ شریعت کے کماحقہ پابند ہوجائیں تو انہیں آل النبی کہا جاسکتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ } ( سورة غافر 28) اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص ۔ ۔۔۔ کہئے ۔ میں اس مرد مومن کے آل فرعون سے ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ( بظاہر ) تو اس کے خصوص اہل کاروں اور فرعون شریعت کے ماننے والوں سے تھا اور مسکن فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعما ل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں
Top