Mufradat-ul-Quran - Al-Anfaal : 62
وَ اِنْ یُّرِیْدُوْۤا اَنْ یَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ١ؕ هُوَ الَّذِیْۤ اَیَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَۙ
وَاِنْ : اور اگر يُّرِيْدُوْٓا : وہ چاہیں اَنْ : کہ يَّخْدَعُوْكَ : تمہیں دھوکہ دیں فَاِنَّ : تو بیشک حَسْبَكَ : تمہارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ هُوَ : وہ الَّذِيْٓ : جس نے اَيَّدَكَ : تمہیں زور دیا بِنَصْرِهٖ : اپنی مدد سے وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ : اور مسلمانوں سے
اور اگر یہ چاہیں کہ تم کو فریب دیں تو خدا تمہیں کفایت کرے گا۔ وہی تو ہے جس نے تم کو اپنی مدد سے اور مسلمانوں (کی جمعیت) سے تقویت بخشی۔
وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۝ 0 ۭ ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۝ 62 ۙ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ خدع الخِدَاع : إنزال الغیر عمّا هو بصدده بأمر يبديه علی خلاف ما يخفيه، قال تعالی: يُخادِعُونَ اللَّهَ [ البقرة/ 9] ، أي : يخادعون رسوله وأولیاء ه، ونسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معاملة الرّسول کمعاملته، ولذلک قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ [ الفتح/ 10] ، وجعل ذلک خدا عا تفظیعا لفعلهم، وتنبيها علی عظم الرّسول وعظم أولیائه . وقول أهل اللّغة : إنّ هذا علی حذف المضاف، وإقامة المضاف إليه مقامه، فيجب أن يعلم أنّ المقصود بمثله في الحذف لا يحصل لو أتي بالمضاف المحذوف لما ذکرنا من التّنبيه علی أمرین : أحدهما : فظاعة فعلهم فيما تحرّوه من الخدیعة، وأنّهم بمخادعتهم إيّاه يخادعون الله، والثاني : التّنبيه علی عظم المقصود بالخداع، وأنّ معاملته کمعاملة الله، كما نبّه عليه بقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ ... الآية [ الفتح/ 10] ، وقوله تعالی: وَهُوَ خادِعُهُمْ [ النساء/ 142] ، قيل معناه : مجازيهم بالخداع، وقیل : علی وجه آخر مذکور في قوله تعالی: وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ [ آل عمران/ 54] وقیل : خَدَعَ الضَّبُّ أي : استتر في جحره، واستعمال ذلک في الضّبّ أنه يعدّ عقربا تلدغ من يدخل يديه في جحره، حتی قيل : العقرب بوّاب الضّبّ وحاجبه ولاعتقاد الخدیعة فيه قيل : أَخْدَعُ من ضبّ و طریق خَادِع وخَيْدَع : مضلّ ، كأنه يخدع سالکه . والمَخْدَع : بيت في بيت، كأنّ بانيه جعله خادعا لمن رام تناول ما فيه، وخَدَعَ الریق : إذا قلّ متصوّرا منه هذا المعنی، والأَخْدَعَان تصوّر منهما الخداع لاستتارهما تارة، وظهورهما تارة، يقال : خَدَعْتُهُ : قطعت أَخْدَعَهُ ، وفي الحدیث : «بين يدي السّاعة سنون خَدَّاعَة» أي : محتالة لتلوّنها بالجدب مرّة، وبالخصب مرّة . ( خ د ع ) الخداع کے معنی ہیں جو کچھ دل میں ہوا س کے خلاف ظاہر کرکے کسی کو اس چیز سے پھیرلینا جس کے علاوہ درپے ہوا اور آیت کریمہ :۔ يُخادِعُونَ اللَّهَ [ البقرة/ 9]( اپنے پندار میں ) خدا کو چکمہ دیتے ہیں ۔ میں اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے سے اس کے رسول اور اولیاء کو فریب دینا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آنحضرت کے ساتھ کوئی سا معاملہ کرنا گو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے ۔ اس بنا پر فرمایا :۔ إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ إِنَّما يُبايِعُونَ اللَّهَ [ الفتح/ 10] جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں ۔ اور ان کے اس فعل کی شناخت اور آنحضرت اور صحابہ کرام کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے اسے خدا سے تعبیر کیا ہے ۔ اور بعض اہل لغت کا یہ کہنا کہ یہاں ( مضاف محذوف ہے اور اصل میں یخادعون رسول اللہ ہے ۔ پھر مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے ۔ تو اس کے متعلق یہ جان لینا ضروری ہے کہ مضاف محذوف کو ذکر کرنے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے کہ ایک تو یہاں ان کی فریب کاریوں کی شناخت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور دوسرے یہ بتانا ہی کہ آنحضرت کے ساتھ معاملہ کرنا اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرنے کے مترادف ہے جیسا کہ آیت إِنَّ الَّذِينَ يُبايِعُونَكَ ... الآية [ الفتح/ 10] میں بیان ہوچکا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَهُوَ خادِعُهُمْ [ النساء/ 142] اور وہ انہیں کو ۔ دھوکے میں ڈالنے والا ہے ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہیں ان کی فریب کاریوں کا بدلہ دے گا اور بعض نے کہا ہے کہ مقابلہ اور مشاکلہ کے طور پر یہ کہا گیا ہے جیسا کہ آیت وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ [ آل عمران/ 54] میں ہے ۔ خدع الضب گوہ کا اپنے بل میں داخل ہوجانا اور گوہ کے بل میں چھپ جانے کے لئے خدع کا استعمال اس بنا پر ہے کہ اس کی بل کے دروازے پر ہمیشہ ایک بچھو تیا ربیٹھا رہتا ہے ۔ جو بل میں ہاتھ ڈالنے والے کو ڈس دیتا ہے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے العقرب بواب الضب کو بچھو گوہ کا دربان ہے ۔ چونکہ اہل عرب کے ہان ضب کی مکاری ضرب المثل تھی اس لئے کہا گیا ہے ( مثل ) ھو اخدع من الضب کہ وہ ضب سے زیادہ مکار ہے طریق خادع وخیدع گمراہ کرنے والا راستہ گویا وہ مسافر کا دھوکا دیتا ہے ۔ الھذع بڑے کمرے کے اندر چھوٹا کمرہ ۔ گو یا اس بڑے کمرے سے چیز اٹھانے والے کو دھوکا دینے کے لئے بنایا ہے ۔ خدع الریق منہ میں تھوک کا خشک ہونا اس میں بھی دھوکے کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الاخدعان گردن کی دو رگیں کیونکہ وہ کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ ہو ہیں ۔ کہا جاتا ہے خدعتہ میں نے اس کی اخدع رگ کو کاٹ دیا ۔ حدیث میں ہے (107) بین یدی الساعۃ سنون خداعۃ کہ قیامت کے قریب دھو کا دینے والے سال ہوں گے کیونکہ وہ بھی خشک سالی اور خوشحالی سے رنگ بالتے ہوں گے ۔ حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ ايد ( قوة) قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة/ 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران/ 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة/ 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه . ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة/ 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران/ 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی ﷺ کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی ﷺ میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
Top