Mufradat-ul-Quran - At-Tawba : 49
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْ١ؕ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو۔ کوئی يَّقُوْلُ : کہتا ہے ائْذَنْ : اجازت دیں لِّيْ : مجھے وَلَا تَفْتِنِّىْ : اور نہ ڈالیں مجھے آزمائش میں اَلَا : یاد رکھو فِي : میں الْفِتْنَةِ : آزمائش سَقَطُوْا : وہ پڑچکے ہیں وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمُحِيْطَةٌ : گھیرے ہوئے بِالْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے تو اجازت ہی دیجئے۔ اور آفت میں نہ ڈالئے۔ دیکھو یہ آفت میں پڑگئے ہیں اور دوزخ سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَا تَفْتِنِّىْ۝ 0 ۭ اَلَا فِي الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا۝ 0 ۭ وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِيْطَۃٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ۝ 49 وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ سقط السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران : السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع . ( س ق ط ) السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
Top