Mufradat-ul-Quran - At-Tawba : 57
لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَیْهِ وَ هُمْ یَجْمَحُوْنَ
لَوْ يَجِدُوْنَ : اگر وہ پائیں مَلْجَاً : پناہ کی جگہ اَوْ مَغٰرٰتٍ : اور غار (جمع) اَوْ : یا مُدَّخَلًا : گھسنے کی جگہ لَّوَلَّوْا : تو وہ پھرجائیں اِلَيْهِ : اس کی طرف وَهُمْ : اور وہ يَجْمَحُوْنَ : رسیاں تڑاتے ہیں
اگر ان کو کوئی بچاؤ کی جگہ (جیسے قلعہ) یا غار ومغار یا (زمین کے اندر) گھُسنے کی جگہ مل جائے تو اسی طرف رسیاں تڑاتے ہوئے بھاگ جائیں
لَوْ يَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَيْہِ وَہُمْ يَجْمَحُوْنَ۝ 57 وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ ( ملجأ) اسم مکان من فعل لجأ الثلاثيّ وزنه مفعل بفتح المیم والعین، فهو صحیح مضارعه مفتوح العین ( مغارات) ، جمع مغارة بفتح المیم وضمّها، أو جمع مغار بفتح المیم وضمّها، اسم مکان من غار الثلاثيّ والألف منقلبة عن واو أصلها مغورة۔ بفتح الواو۔ جاءت الواو متحرّكة بعد فتح قلبت ألفا . ( مدّخلا) ، اسم مکان من ادّخل الخماسيّ ، فهو علی وزن مفتعل بضمّ المیم وفتح العین . غور الغَوْرُ : المُنْهَبِطُ من الأرض، يقال : غَارَ الرجل، وأَغَارَ ، وغَارَتْ عينه غَوْراً وغُئُوراً «2» ، وقوله تعالی: ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک/ 30] ، أي : غَائِراً. وقال : أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف/ 41] . والغارُ في الجبل . قال : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة/ 40] ، وكنّي عن الفرج والبطن بِالْغَارَيْنِ «3» ، والْمَغَارُ من المکان کا لغور، قال : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا [ التوبة/ 57] ، وغَارَتِ الشّمس غِيَاراً ، قال الشاعر : هل الدّهر إلّا ليلة ونهارها ... وإلّا طلوع الشّمس ثمّ غيارها«4» وغَوَّرَ : نزل غورا، وأَغَارَ علی العدوّ إِغَارَةً وغَارَةً. قال تعالی: فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات/ 3] ، عبارة عن الخیل . ( غ ور ) الغور کے معنی نشیبی زمین کے ہیں محاورہ ہے غارالرجل اوغار یشبی زمین میں چلا جانا غارت عینہ غورا وغورورا آنکھ کا اندر پھنس جانا قرآن پاک میں ہے ؛ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک/ 30] تمہارا پانی بہت زیادہ زمین کے نیچے اتر جائے ۔ أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف/ 41] یا اس کا پانی زمین کے اندر اتر جائے ۔ الغار کے معنی غار کے ہیں ( ج اغوار وغیران ) قرآن پاک میں ہے : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة/ 40] جب وہ دونوں غار ( ثور ) میں تھے : اور کنایہ کے طور پر فر ج و بطن یعنی پیٹ اور شرمگاہ کو غار ان ( تثبیہ ) کہاجاتا ہے اور مغار کا لفظ غور کی طرح اسم مکان کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ض ( جمع مغارات) قرآن پاک میں ہے : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا[ التوبة/ 57] اگر ان کو کوئی بچاؤ کی جگہ ( جیسے قلعہ ) یا رغار ومغاک یا زمین کے اندر ) کھسنے کی جگہ مل جائے ۔ اور غارت الشمس غیارا کے معنی سورج غروب ہوجانے کے ہیں ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (333) ھل الدھر الالیلۃ ونھارھا والا طلوع الشمس ثم غیارھا ( زمانہ دن رات کی گردش اور سورج ک طلوع و غروب ہونے کا نام ہے ) غور کے معنی پست زمین میں چلے جانے کے ہیں واغار علی الغدو ا اغارۃ وغارۃ کے معنی دشمن پر لوٹ مارنے کے قرآن پاک میں ہے ؛ فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات/ 3] پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں ۔ اور اس سے مراد گھوڑے ہیں ( جو صبح کو دشمن پر چھاپہ مارتے ہیں) جمح قال تعالی: وَهُمْ يَجْمَحُونَ [ التوبة/ 57] ، الجَمُوح أصله في الفرس إذا غلب فارسه بنشاطه في مروره وجریانه، وذلک أبلغ من النشاط والمرح، والجُمَاح : سهم يجعل علی رأسه کالبندقة يرمي به الصبیان ( ج م ح ) گھوڑے کا تیزی کے ساتھ دوڑتے جانا اور سوار کے قابو میں نہ رہنا یہ نشاط اور مرح سے زیادہ بلیغ ہے ۔ پھر کسی آدمی کے سرکشی کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَهُمْ يَجْمَحُونَ [ التوبة/ 57] ۔۔۔۔ رسیاں تڑاتے ہوئے الجماح بےپھل کا تیر جس سے بچے کھلتے ہیں اس کے سرے پر غلبہ سا لگا ہوتا ہے
Top