Mutaliya-e-Quran - Yunus : 59
قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَّ حَلٰلًا١ؕ قُلْ آٰللّٰهُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَى اللّٰهِ تَفْتَرُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اَرَءَيْتُمْ : بھلا دیکھو مَّآ اَنْزَلَ : جو اس نے اتارا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ : سے رِّزْقٍ : رزق فَجَعَلْتُمْ : پھر تم نے بنا لیا مِّنْهُ : اس سے حَرَامًا : کچھ حرام وَّحَلٰلًا : اور کچھ حلال قُلْ : آپ کہ دیں آٰللّٰهُ : کیا اللہ اَذِنَ : حکم دیا لَكُمْ : تمہیں اَمْ : یا عَلَي : اللہ پر اللّٰهِ : اللہ تَفْتَرُوْنَ : تم جھوٹ باندھتے ہو
اے نبیؐ، ان سے کہو “تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے اتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھیرا لیا!" اِن سے پوچھو، اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟
قُلْ [ آپ کہئے ] اَ [ کیا ] رَءَيْتُمْ [ تم لوگوں نے غور کیا ] مَّآ [ اس پر جو ] اَنْزَلَ [ اتارا ] اللّٰهُ [ اللہ نے ] لَكُمْ [ تمہارے لیے ] مِّنْ رِّزْقٍ [ کچھ رزق میں سے ] فَجَــعَلْتُمْ [ پھر تم لوگوں نے بنایا ] مِّنْهُ [ اس میں سے ] حَرَامًا [ کچھ کو حرام ] وَّحَلٰلًا ۭ [ اور کچھ کو حلال ] قُلْ [ آپ کہئے ] اٰۗللّٰهُ [ کیا اللہ نے ] اَذِنَ [ اجازت دی ] لَكُمْ [ تم لوگوں کو ] اَمْ [ یا ] عَلَي اللّٰهِ ] اللہ پر ] تَفْتَرُوْنَ [ تم لوگ گھڑتے ہو (جھوٹ ) ] نوٹ ۔ 3: زیرمطالعہ آیت ۔ 59 میں رزق کا لفظ آیا ہے ۔ اردو زبان میں رزق کا اطلاق کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہاں گرفت صرف اس قانون سازی پر کی گئی ہے جو دسترخوان کی چھوٹی سی دنیا میں مذہبی ادہام یارسم و رواج کی بنا پر لوگوں نے کر ڈالی ہے۔ اس غلط فہمی میں عوام ہی نہیں علماء تک مبتلاء ہیں ۔ حالانکہ عربی زبان میں رزق محض خوراک کے معنی تک محدود نہیں بلکہ عطاء بخشش اور نصیب کے معنی میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی انسان کو دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے حتی کہ اولاد تک رزق ہے۔ مشہور دعا ہے اللہم ارنا الحق وارزقنا اتباعہ یعنی اے اللہ تم ہمیں دکھا حق کو حق ہوتے ہوئے اور تو ہمیں توفیق دے اس کی پیروی کرنے کی ، یہاں رزق کا لفظ توفیق دینے کے معنی میں آیا ہے ۔ پس رزق کو محض دسترخوان کی سرحدوں تک محدود سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان پابندیوں اور آزدیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملہ میں لوگوں نے بطور خود اختیار کرلی ہیں ، سخت غلطی ہے ۔ اور یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے ۔ اس کی بدولت اللہ کے دین کی ایک بہت بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے ۔ یہ اسی غلطی کا نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت کا معاملہ تو ایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کرلیا جائے کہ انسان خود اپنے لئے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے اور اسی بنا پر اللہ اور اس کی کتاب سے بےنیاز ہوکر قانون سازی کی جانے لگے ، تو عامی تو درکنار ، علماء دین تک کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس طرح کھانے پینے کی چیزوں میں خود جائز و ناجائز کا فیصلہ کرنا ۔ (تفہیم القرآن )
Top