Mutaliya-e-Quran - Yunus : 95
وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَتَكُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
وَلَا تَكُوْنَنَّ : اور نہ ہونا مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِ : آیتوں کو اللّٰهِ : اللہ فَتَكُوْنَ : پھر ہوجائے مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
اور ان لوگوں میں نہ شامل ہو جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا ہے، ورنہ تو نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا
وَلَا تَكُوْنَنَّ [ اور آپ ہرگز مت ہوں ] مِنَ الَّذِيْنَ [ ان لوگوں میں سے جنھوں نے ] كَذَّبُوْا [ جھٹلایا ] بِاٰيٰتِ اللّٰهِ [ اللہ کی نشانیوں کو ] فَتَكُوْنَ [ ورنہ آپ ہوجائیں گے ] مِنَ الْخٰسِرِيْنَ [ خسارہ اٹھانے والوں میں ] (آیت ۔ 95) فتکون کا فاسببیہ ہے۔ نوٹ ۔ 2: آیات 94 ۔ 95 میں ایک خاص انداز خطاب اختیار کیا گیا ہے جس کے لئے پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ کہنا بیٹی کو تو سنانا بہو کو ، اس پر اتفاق رائے ہے کہ ان آیات میں یہی انداز خطاب اختیار کیا گیا ہے ۔ البتہ اس بات پر دو آراء ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرکے دراصل کس کو سنانا مقصود ہیں ۔ (1) حضرت قتادہ کا قول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہ میں شک کرتا ہوں اور نہ مجھے پوچھنے کی ضرورت ہے۔ اس آیت میں امت کو ثابت قدم رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ (ابن کثیر) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں دراصل امت کے ایسے افراد کو سنانا مقصود ہے جو ایمان کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن دل میں کچھ شکوک و شبہات بھی ہوتے ہیں ۔ اللہ کے احکام کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اپنے عمل سے اس کی تکذیب کرتے ہیں ، جیسے تسلیم کرتے ہیں کہ نماز فرض ہے لیکن پڑھتے نہیں ہیں وغیرہ ۔ (2) دوسری رائے یہ ہے کہ ان لوگوں کو سنانا مقصود ہے جو سب کچھ سمجھنے کے باوجود محض اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار اور تکذیب کرتے ہیں ۔ ان کی اس روش پر اظہار ناراضگی کے لئے اللہ تعالیٰ نے براہ راست ان کو خطاب کرنے کے بجائے رسول اللہ ﷺ سے خطاب کرکے ان کو سنایا ہے ( تدبر قرآن سے ماخوذ ) ۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ ان آیات کی دونوں آراء کو جامع سمجھا جائے ] نوٹ ۔ 3: حضرت یونس (علیہ السلام) کا زمانہ 860 ق م سے 784 قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے ۔ اگر چہ اسرائیلی نبی تھے ، مگر ان کو اشور (اسریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا ۔ اسی لئے اشوریوں کو یہاں قوم یونس کہا گیا ہے ۔ اس قوم کا مرکز نینوی کا مشہور شہر تھا ۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت نینوی تقریبا ساٹھ میل میں پھیلا ہوا تھا ۔ جب یہ قوم ایمان لے آئی تو اس کی مہلت عمر میں اضافہ کردیا گیا ۔ بعد میں اس نے پھر گمراہیاں اختیار کرنا شروع کردیں ، ناحوم نبی (720 تا 698 ق م) نے آخری وارننگ دی ۔ خبردار کیا مگر کوئی اثر نہ ہوا ، پھر صفنیاہ نبی مبعوث ہوئے مگر (640 تا 409 ق م) وہ بھی کارگر نہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے میڈیا والوں کو ان پر مسلط کردیا ۔ اشوری فوج شکست کھا کر نینوی میں محصور ہوگئی ۔ کچھ مدت تک اس نے سخت مقابلہ کیا ۔ پھر دجلہ کی طغیانی نے شہر کی فیصل توڑ دی اور حملہ آور اندر گھس گئے ۔ پورا شہر جلا کر خاک کردیا ۔ اشور کا بادشاہ اپنے محل میں آگ لگا کر جل مرا ۔ اس کے ساتھ ہی اشوری سلطنت اور تہذیب بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی ۔ زمانہ حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں آتش زدگی کے نشانات کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ (تفہیم القرآن )
Top