Mutaliya-e-Quran - At-Takaathur : 5
كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ
كَلَّا : ہرگز نہیں لَوْ : کاش تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے عِلْمَ الْيَقِيْنِ : علم یقین
ہرگز نہیں، اگر تم یقینی علم کی حیثیت سے (اِس روش کے انجام کو) جانتے ہوتے (تو تمہارا یہ طرز عمل نہ ہوتا)
كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ ۝ۭ نوٹ 2: مسجد خالد، لاہور کے پہلے خطیب کرنل اختر مرحوم نے ایک مثال کے ذریعے علم القین اور عین الیقین کا فرق اس طرح واضح کیا کہ ایک عام آدمی بھی بڑی آسانی سے اس کو سمجھ لیتا ہے۔ مثال یہ ہے کہ دو آدمی بازار سے ہو کر اپنے گھر جا رہے تھے۔ کسی نے ان کو اطلاع دی کہ اس راستے پر آگے تمہارا دشمن بیٹھا ہے۔ اس راستے سے مت جائو۔ ایک آدمی نے اس اطلاع پر یقین کرلیا اور راستہ بدل کر بخیریت گھر پہنچ گیا۔ دوسرے آدمی نے یقین نہیں کیا۔ آگے جا کر جب وہ دشمن کے ہتھے چڑھ گیا تب اس کو یقین آیا اس مثال میں ایک اَن دیکھی حقیقت کا علم دونوں کو دیا گیا۔ پہلے آدمی نے اس علم پر یقین کرلیا۔ اس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ اس علم سے فائدہ اٹھانے یا کسی خطرے سے بچائو کرنے کے لیے عمل کرنے کا موقع باقی رہتا ہے۔ دوسرے آدمی نے علم پر یقین نہیں کیا۔ آگے جا کر جب اس کو دشمن نظر آیا تو اس کو یقین آگیا۔ اس کو عین الیقین کہتے ہیں۔ لیکن اس وقت عمل کرنے کا موقع باقی نہیں رہتا۔ آیات۔ 5 تا 7 ۔ میں اسی حقیقت کی نشاندہی اس انداز میں کی گئی ہے کہ کاش تم لوگ علم الیقین کی افادیت کو سمجھتے۔ اب نہیں سمجھ رہے ہو تو آگے جا کر دوزخ کو دیکھ کر عین الیقین تو حاصل ہوجائے گا لیکن اس کا فائدہ کوئی نہیں ہوگا۔ اس حوالہ سے اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ سارا اجروثواب علم الیقین پر ہے اور اسی کا دوسرا نام ایمان بالغیب ہے۔ جدید تعلیم یافتہ کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایمان بالغیب کا مطالبہ غیر فطری ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے کیونکہ غیب پر ایمان لانے کی صلاحیت انسان کی فطرت میں ودیعت شدہ (Inbuilt) ہے۔ اس کی تشریح آیت۔ 2:3، نوٹ۔ 2 میں کی جا چکی ہے۔ مورخہ 16 ۔ صفر 432 ھ ۔ بمطابق 21 ۔ جنوری 2011 ئ۔
Top