بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mutaliya-e-Quran - Al-Humaza : 1
وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۙ
وَيْلٌ : خرابی لِّكُلِّ : واسطے، ہر هُمَزَةٍ : طعنہ زن لُّمَزَةِۨ : عیب جو
تباہی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو (منہ در منہ) لوگوں پر طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائیاں کرنے کا خوگر ہے
[وَيْلٌ لِكُلِ : تباہی ہے ہر ایک ][ هُمَزَةٍ : بہت طعنہ زنی کرنے والے ][ لُّمَزَةِۨ: بہت عیب جوئی کرنے والے کے لیے ] ترکیب : (آیات۔ 1 تا 4) ھُمَزَۃٌ۔ لُمَزَۃٌ۔ حُطَمَۃٌ یہ تینوں الفاظ اسمائے صفت ہیں اور ان تینوں پر تائے مبالغہ ہے۔ نوٹ 1: سابق سورة العصر اور اس سورة کے مضمون میں نہایت واضح مناسبت یہ ہے کہ سابق سورة میں فلاح پانے والے انسانوں کا کردار بیان ہوا ہے اور اس سورة میں اس کے بالکل ضد کردار بیان ہوا ہے جو روپیہ گن گن کر رکھتے ہیں اور لوگوں کے حقوق ادا کرنا تو درکنار، کسی کو اگر دیکھ پائیں کہ وہ ادائے حقوق کے معاملے میں عملاً وقولاً سرگرم ہے تو اپنے طعن وطنز سے اسے تنگ کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا حوصلہ پست کردیں تاکہ ان کی بخالت پر پردہ پڑا رہے اور ان کو خفت و ندامت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ قرآن نے بخیل سرمایہ داروں کے اس کردار کی طرف جگہ جگہ اشارہ کیا ہے۔ مثلاً سورة توبہ کی آیت۔ 49 ۔ میں ہے۔ ” جو لوگ خوش دلی سے انفاق کرنے والے اہل ایمان پر ان کے صدقات کے باب میں نکتہ چینی کرتے ہیں اور جو غریب اپنی محنت مزدوری سے انفاق کرتے ہیں، ان پر پھبتیاں چست کرتے ہیں، اللہ نے ان لوگوں کا مذاق اڑایا اور ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔ “ (تدبر قرآن) نوٹ 2: اس سورة کو اگر ان سورتوں کے تسلسل میں رکھ کر دیکھا جائے جو سورة زلزال سے یہاں تک چلی آرہی ہیں تو آدمی بڑی اچھی طرح یہ سمجھ سکتا ہے کہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں کس طریقے سے اسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات کو لوگوں کے ذہن نشین کیا گیا تھا۔ سورة زلزال میں بتایا گیا کہ کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی ایسی نہ ہوگی جو اس نے دنیا میں کی ہو اور وہ آخرت میں اس کے سامنے نہ آجائے۔ سورة عادیات میں اس کشت وخون اور غارت گری کی طرف اشارہ کیا گیا جو عرب میں ہر طرف برپا تھی۔ پھر یہ احساس دلانے کے بعد کہ خدا کی دی ہوئی طاقتوں کا یہ استعمال اس کی بہت بڑی ناشکری ہے، لوگوں کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ اسی دنیا میں ختم نہیں ہوجائے گا بلکہ موت کے بعد دوسری زندگی میں صرف افعال ہی کی نہیں بلکہ نیتوں تک کی جانچ پڑتال ہوگی۔ سورة قارعہ میں قیامت کا نقشہ پیش کرنے کے بعد لوگوں کو خبردار کیا گیا کہ آخرت میں انسان کے انجام کا انحصار اس پر ہوگا کہ اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے یا ہلکا۔ سورة تکاثر میں اس ذہنیت پر گرفت کی گئی جس کی وجہ سے لوگ مرتے دم تک دنیا کے عیش و آرام اور جاہ ومنزلت میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ پھر اس کے برے انجام سے آگاہ کیا گیا کہ ایک ایک نعمت جو یہاں تمہیں مل رہی ہے اس کے لیے تمہیں اپنے رب کو جواب دینا ہوگا کہ اسے کیسے حاصل کیا اور کہاں استعمال کیا۔ سورة عصر میں بتادیا گیا کہ نوع انسانی کا ایک ایک فرد خسارے میں ہے اگر اس میں مذکورہ چار صفات نہ ہوں۔ اس کے بعد یہ سورة آئی ہے جس میں جاہلیت کی سرداری کا ایک نمونہ پیش کر کے لوگوں کے سامنے گویا یہ سوال رکھ دیا گیا کہ یہ کردار خسارے میں کیوں نہ ہو۔ (تفہیم القرآن)
Top