Mutaliya-e-Quran - Hud : 107
خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ
خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں مَا دَامَتِ : جب تک ہیں السَّمٰوٰتُ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضُ : اور زمین اِلَّا : مگر مَا شَآءَ : جتنا چاہے رَبُّكَ : تیرا رب اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تیرا رب فَعَّالٌ : کر گزرنے والا لِّمَا يُرِيْدُ : جو وہ چاہے
اور اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں، الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے بے شک تیرا رب پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے
[خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے ] [ فِيْهَا : اس میں ] [ مَا دَامَتِ : جب تک رہیں ] [السَّمٰوٰتُ : آسمان ] [وَالْاَرْضُ : اور زمین ] [اِلَّا : سوائے اس کے ] [مَا : جو ] [ شَاۗءَ : چاہے ] [رَبُّكَ : آپ ﷺ کا رب ] [ان : بیشک ] [رَبَّكَ : آپ ﷺ کا رب ] [ فَعَّالٌ: کر گزرنے والا ہے ] [ لِمَا : اس کو جو ] [ يُرِيْدُ : وہ ارادہ کرتا ہے ] نوٹ۔ 1: آیت۔ 107 میں جو الفاظ آئے ہیں ان سے یا تو عالم آخرت کے زمین و آسمان مراد ہیں یا محض محاورہ کے طور پر ان کو دوام اور ہمیشگی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ بہرحال موجودہ زمین و آسمان مراد نہیں ہوسکتے کیونکہ قرآن کی رو سے یہ قیامت کے روز بدل ڈالے جائیں گے اور یہاں جن واقعات کا ذکر ہو رہا ہے وہ قیامت کے بعد پیش آنے والے ہیں۔ اس مں استثناء کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اور طاقت ایسی نہیں ہے جو ان لوگوں کو اس دائمی عذاب سے بچا سکے۔ البتہ اللہ تعالیٰ خود ہی کسی کے انجام کو بدلنا چاہے یا کسی کو ہمیشگی کا عذاب دینے کے بجائے ایک مدت تک عذاب دے کر معاف کردینے کا فیصلہ فرماے تو ایسا کرنے کا اسے پورا اختیار حاصل ہے۔ (تفہیم القرآن)
Top