Mutaliya-e-Quran - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا، اللہ کا مطیع فرمان اور یک سو وہ کبھی مشرک نہ تھا
[ان : بیشک ] [ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم (علیہ السلام) ] [ كَان : تھے ] [ اُمَّةً : (اپنی ذات میں) ایک امت،] [ قَانتًا : اطاعت کرنے والے تھے ] [ للّٰهِ : اللہ کے لئے ] [ حَنِيْفًا ۭ: یکسو تھے ] [ وَلَمْ يَكُ : اور وہ تھے ہی نہیں ] [ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والوں میں ] ترکیب : (آیت۔ 120) کَانَ کی خبر ہونے کی وجہ سے اُمَّۃً حالت نصب میں ہے۔ قَانِتًا اور حَنِیْفًا کی نصب کے تین امکانات ہیں۔ اَوَّلًا یہ کہ انھیں اُمَّۃً کی صفت یا بدل مانا جائے۔ ثَانِیًا یہ کہ انھیں اِبْرٰہِیْمَ کا حال مانا جائے۔ ثَالثًا یہ کہ انھیں بھی کَانَ کی خبر مانا جائے۔ یعنی ان سے پہلے وَکَانَ محذوف مانا جائے۔ ترجمہ میں ہم تیسرے امکان کو ترجیح دیں گے۔ نوٹ۔ 1: لفظ امت چندمعانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مشہور معنی جماعت اور قوم کے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے اس جگہ (یعنی آیت۔ 120 میں) یہی معنی منقول ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) تنہا ایک فرد، ایک امت اور قوم کے کمالات و فضائل کے جامع ہیں۔ (معارف القرآن) جیسے اردو میں ہم کہتے ہیں کہ وہ شخص تو خود اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔ اسی مفہوم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک امت کہا گیا ہے۔ اس بات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو نظر یہ آتا ہے کہ حضرت موسٰی (علیہ السلام) کے کار رسالت میں ہاتھ بٹانے والے حضرت ہارون (علیہ السلام) کے علاوہ قبیلہ کے بڑے سردار بھی تھے جن میں سے ستر کو چن کر موسٰی (علیہ السلام) میقات پر لے گئے تھے (7:155) ۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی صحابۂ کرام ؓ کی جماعت تھی۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنا کار رسالت تنِ تنہا سرانجام دیا اور اس طرح دیا کہ آج دنیا کے تین بڑے مذاہب یعنی یہود، نصارٰی اور مسلمان ان (علیہ السلام) کو اپنا امام اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔
Top