Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 106
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَا١ؕ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
مَا نَنْسَخْ : جو ہم منسوخ کرتے ہیں مِنْ آيَةٍ : کوئی آیت اَوْ نُنْسِهَا : یا اسے بھلا دیتے ہیں نَأْتِ : لے آتے ہیں بِخَيْرٍ : بہتر مِنْهَا : اس سے اَوْ مِثْلِهَا : یا اس جیسا اَلَمْ : کیا نہیں تَعْلَمْ : جانتے تم اَنَّ اللہ : کہ اللہ عَلٰى : پر كُلِّ شَیْءٍ : ہر شے قَدِیْرٌ : قادر
ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بُھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لے آتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟
[ مَا نَنْسَخْ : جو ہم زائل کرتے ہیں ] [ مِنْ اٰيَةٍ : کوئی بھی آیت ] [ اَوْ نُنْسِهَا : یا ہم بھلا دیتے ہیں اس کو ] [ نَاْتِ : تو ہم لاتے ہیں ] [ بِخَيْرٍ مِّنْهَآ : اس سے زیادہ بہتر کو ] [ اَوْ مِثْلِهَا ۭ: یا اس کی مانند ] [ اَلَمْ تَعْلَمْ : کیا تو نے جانا نہیں ] [ اَنَّ اللّٰه : کہ اللہ َ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیر پر ] [ قَدِيْرٌ قدرت والا ہے ] 2: 64: 1 اللغۃ لغوی اعتبار سے تو اس پورے قطعہ میں صرف ایک ہی لفظ ” نَنْسَخْ “ نیا ہے ‘ باقی تمام کلمات براہ راست یا بالواسطہ پہلے گزر چکے ہیں۔ لہٰذا عبارت کو چھوٹے چھوٹے جملوں میں تقسیم کر کے ہر ایک کلمہ کا ترجمہ مع گزشتہ حوالہ لکھ دینا کافی ہوگا۔ 2: 64: 1 (1) [ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا …] A ” مَا “ (جو بھی۔ جس کو بھی) یہاں ” مَا “ موصولہ بطور شرطیہ ہے ‘ دیکھیے [ 2: 2: 1 (5)] B ” [ نَنْسَخْ ]“ کا مادہ ” ن س خ “ اور وزن ” نَفْعَلْ “ ہے۔ یعنی یہ فعل مجرد سے صیغہ مضارع مجزوم جمع متکلم ہے (جزم کی وجہ ” الاعراب “ میں آئے گی) ۔ ۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” نسَخ … ینسَخْ نَسْخًا “ (فتح سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ”… کو (اس کی جگہ سے) ہٹا دینا ‘ مٹا دینا “ (اس کی جگہ کوئی دوسری چیز لائی جائے یا نہ لائی جائے) ۔ اس فعل کا مفعول بنفسہٖ (منصوب) آتا ہے ‘ مثلاً کہتے ہیں ” نسخَتِ الریحُ الأثرَ “ (ہوا نے نشان کو مٹا دیا) ۔ پھر اس فعل میں بلحاظِ استعمال کئی مفہوم پیدا ہوتے ہیں۔ ۔ بعض دفعہ اس میں کسی چیز کو ہٹا کر خود (فاعل کا) اس کی جگہ لے لینے کا مفہوم ہوتا ہے ‘ مثلاً کہتے ہیں ” نسخَ الشیبُ الشبابَ “ (بڑھاپے نے جوانی کو ہٹا دیا ‘ یعنی خود اس کی جگہ لے لی) ۔ اور بعض دفعہ ان ہی معنوں کے لیے ہٹائی جانے والی چیز تو عبارت میں مفعول بنفسہٖ (منصوب) ہو کر آتی ہے مگر اس کی جگہ لائی جانے والی چیز کا ذکر ” بِ “ (کے ذریعے) کا صلہ لگ کر ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ” نسَخ شیئًا بشیئٍ “ (اس نے ایک چیز کو کسی دوسری چیز سے ہٹا دیا یعنی پہلی کو ہٹا کر دوسری اس کی جگہ لایا) تاہم یہ ” بِ “ کے صلہ والا) استعمال قرآن کریم میں نہیں آیا۔ ۔ پھر اسی سے اس فعل میں ” ہٹا کر دوسری جگہ لے جانا “ کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ” نسختِ الشمسُ الظلَّ “ (سورج نے سائے کو ہٹا دیا ‘ یعنی اے دوسری جگہ لے گیا) اور ۔ پھر اسی ” منتقل کرنا “ سے اس میں اصل کے مطابق ” نقل کرنا “ کے معنی آتے ہیں یعنی اصل کو ہٹائے یا مٹائے بغیر بلکہ اسے ثابت اور برقرار رکھتے ہوئے اس جیسی دوسری چیز تیار کرلینا۔ مثلاً کہتے ہیں ” نسخَ الکتابَ “ (اس نے کتاب (سے دوسری کتاب یا عبارت) حرف بحرف نقل کرلی ‘ لکھ لی۔ ) ۔ قرآن کریم کی کتابت میں (عموماً ) استعمال ہونے والے خط کو ” خطِ نسخ ‘ ‘ (جو عربی خطوط جمیلہ کی ایک قسم ہے) اسی لیے کہتے ہیں کہ قرآن کریم کا ہر نسخہ ہمیشہ کسی دوسرے نسخہ سے (بلحاظِ طریق املاء و ہجائ) ہو بہو نقل کیا جاتا ہے۔ [ خود ” نسخۃ “ کا لفظ ‘ جو فعل نسخ ینسخ سے ہی ماخوذ ایک اسم ہے ‘ قرآن کریم میں آیا ہے (الاعراف : 154) جس کے اصل معنی تو ہیں ” جس سے نقل کیا گیا “ (منقول عنہ) تاہم جو ” نقل کیا گیا “ (منقول) اسے بھی ” نُسخۃ “ ہی کہتے ہیں کیونکہ وہ اصل کا قائم مقام ہے۔ یہ لفظ (نسخہ) اردو میں (بعض دوسرے معانی کے لیے بھی) مستعمل ہے۔ ۔ اور اس فعل ” نَسَخَ “ کے ان ہی (مندرجہ بالا) معانی میں استعمال کی بناء پر راغب ۔ نے (مفردات میں) لکھا ہے کہ ” نَسْخ “ میں ” ازالۃ “ (یعنی اصل کو ہی ہٹا یا مٹا دینا) کا مفہوم بھی ہوتا ہے اور کبھی (اصل کے) ” اثبات “ (برقرار رکھنا) کا مفہوم بھی ہوتا ہے اور کبھی بیک وقت دونوں مفہوم موجود ہوتے ہیں۔ ۔ اور اس ” ہٹا دینا ‘ مٹانا “ سے ہی اس فعل ” نسَخ ینسَخ “ کا ایک ترجمہ ” منسوخ کردینا “ بھی کیا جاسکتا ہے اور کیا گیا ہے۔ (” منسوخ “ خود اس فعل سے اسم المفعول ہے بمعنی ” ہٹا دیا ہوا “ ) اور چونکہ اردو … خصوصاً پرانی اردو … میں ” موقوف کرنا “ بمعنی ” ہٹا دینا ‘ برطرف کرنا “ (مثلاً نوکری سے) بھی استعمال ہوتا ہے اس لیے بعض مترجمین قرآن نے اس کا ترجمہ ” موقوف کرنا “ بھی کیا ہے۔ ۔ اس فعل مجرد سے قرآن کریم میں صرف فعل مضارع کے دو ہی صیغے دو جگہ آئے ہیں (دوسرا صیغہ الحج : 52 میں ہے) ۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے باب استفعال سے ایک صیغہ فعل اور ثلاثی مجرد سے ماخوذ ایک اسم ” نُسْخَۃ “ بھی ایک جگہ آیا ہے (جس کا ابھی اوپر ذکر ہوا ہے) ۔ قرآن کریم میں یہ فعل مجرد (دونوں جگہ) اپنے اصل بنیادی (” ہٹا دینا “ والے) معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ اس طرح یہاں ” مَا نَنْسَخْ “ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” جو بھی : جس کو بھی ہم ہٹا دیتے ہیں : موقوف کردیتے ہیں : منسوخ کردیتے ہیں “۔ بعض مترجمین نے ” کردیتے “ کی بجائے (جس میں ” تکمیل “ یعنی ” پوری طرح کرنا “ کا مفہوم ہے) صرف ” کرتے “ سے ترجمہ کیا ہے جو لفظ سے زیادہ قریب ہے۔ بعض نے زمانہ حال کی بجائے صرف مضارع یعنی ” کردیں “ سے ہی ترجمہ کیا ہے۔ (عربی میں مضارع زمانہ حال اور مستقبل دونوں کا مفہوم رکھتا ہے) جب کہ بعض حضرات نے ضمیر تعظیم کا لحاظ کرتے ہوئے ” ہم منسوخ فرما دیں “ سے ترجمہ کیا ہے۔ البتہ جن حضرات نے ” مَا “ کا ترجمہ (” جو بھی : جس کو بھی “ کی بجائے) ” جب “ سے کیا ہے یہ محل نظر ہے ‘ کیونکہ یہ تو ” اِذَا “ یا ” اِذْ “ کا ترجمہ لگتا ہے۔ اور ” مَا “ اگر ظرفیہ بھی ہو تو اس کا اردو ترجمہ ” جب تک یا جتنی دیر تک “ ہوتا ہے۔ C ” مِنْ آیۃٍ “ (کسی آیت میں سے : کوئی بھی آیت) ” مِنْ “ جو مشہور حرف الجر ہے یہاں تبعیض کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور تنصیص نکرہ (نکرہ کی قطعیت اور تاکید) کے لیے بھی ‘ دیکھیے البقرہ : 3 [ 2: 2: 1 (5)] ۔ پہلی (تبعیض کی) صورت میں اس مرکب کا ترجمہ ” کسی آیت : میں سے : کا کچھ حصہ “ ہو کتا ہے۔ مترجمین میں سے بعض نے اس کا ترجمہ ” آیتوں میں سے “ کی صورت میں کیا ہے جس میں واحد کا بصورتِ جمع ترجمہ تفسیری ہی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح بعض نے ” کسی آیت کا حکم “ سے ترجمہ کیا ہے۔ اس میں ” حکم “ کا اضافہ بھی تفسیری ہے۔ دوسری صورت (تنصیص) میں اس کا ترجمہ ” کوئی بھی آیت : جس بھی آیت کو : کسی بھی آیت کو “ ہونا چاہیے۔ اکثر مترجمین نے ” بھی “ کے بغیر صرف ” کوئی آیت : کسی آیت “ سے ترجمہ کیا ہے جو بظاہر صرف لفظ ” آیۃٍ “ کا ترجمہ لگتا ہے۔ تنصیص کے مفہوم کے لیے اردو میں ” بھی “ کا لانا ضروری تھا ‘ تاہم ” کسی یا کوئی “ میں نکرہ کا مفہوم آگیا ہے۔ بعض نے صرف ” جو آیت : جس آیت “ سے ترجمہ کیا ہے جس میں نہ تبعیض کا مفہوم ہے نہ تنصیص والی تاکید اور قطعیت کا۔ دوسرا لفظ ” آیۃ “ ہے جس کا مادہ ” أ ی ی “ اور وزن اصلی (غالباً ) ” فَعَلَۃٌ“ ہے۔ اس پر مفصل بحث البقرہ : 39 [ 2: 27: 1 (5)] میں گزر چکی ہے۔ اس لفظ کے قرآنی ضبط پر آگے بات ہوگی ‘ کیونکہ یہاں جو ہم نے اسے ” آ “ کے ساتھ لکھا ہے یہ عام املائی رسم ہے۔ D [ اَوْ نُنْسِھَا ] یہ در اصل تتین کلمات اَوْ + نُنْسِ + ھَا کا مرکب ہے۔ ان میں سے ” اَوْ “ (بمعنی ” یا “ ) کے استعمال پر البقرہ : 19 [ 2: 14: 1 (1)] میں بات ہوچکی ہے۔ آخری لفظ ” ھَا “ ضمیر واحد مؤنث غائب (بمعنی ” اس کو “ ) ہے … اور کلمہ ” نُنْسِ “ کا مادہ ” ن س ی “ اور وزن اصلی ” نُفْعِلُ “ ہے۔ یعنی یہ باب افعال سے فعل مضارع مجزوم کا صیغہ جمع متکلم ہے (جزم کی وجہ آگے ” الاعراب “ میں آئے گی) یہ اصل میں ” نُنْسِیْ “ تھا۔ جزم کی وجہ سے ” نُنْسِیْ “ ہوگیا اور ناقص مجزوم کے قاعدے کی بنا پر آخری ” ی “ گر کر اس کی (استعمالی) صورت ” نُنْسِ “ ہوگئی جس کا وزن اب ” نُفْعِ “ رہ گیا ہے۔ ۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” نَسِیَ یَنْسَی “ (بھول جانا ‘ ترک کرنا) کے باب اور معانی و استعمال پر البقرہ : 44 [ 2: 29: 1 (8)] میں مفصل بات ہوچکی ہے (کلمہ تَنْسَوْنَ کے ضمن میں) ۔ ۔ اس سے باب افعال کے فعل اَنْسٰی یُنْسِی اِنْسائً “ (در اصل اَنْسَیَ یُنْسِیُ اِنْسَایًا) کے معنی ہیں : بھلا دینا ‘ ذہن سے اتار دینا ‘ فراموش کردینا۔ اس متعدی فعل کے ہمیشہ دو مفعول اور دونوں بنفسہٖ (منصوب) آتے ہیں۔ پہلا مفعول وہ شخص ہوتا ہے جس کو بھلا دیا جائے یا اس کے ذہن سے اتار دیا جائے … دوسرا مفعول وہ چیز یا بات ہوتی ہے جو اس (شخص) کو بھلا دی جائے اور جس کو اس (شخص) کے ذہن سے اتار دیا جائے۔ مثلاً کہتے ہیں ” اَنْسَی الرَّجلَ الشیئَ “ (اس نے آدمی کو چیز بھلا دی ‘ فراموش کرا دی) اور قرآن کریم میں ہے نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسَا ھُمْ اَنْفُسَھُمْ (الحشر : 19) یعنی ” وہ بھول گئے اللہ کو تو اس نے بھلا دیئے ان کو ان کے (اپنے) نفس (جانیں) ۔ “ ۔ بعض دفعہ اس فعل کا ایک مفعول محذوف (غیر مذکور) ہوتا ہے جو سیاق عبارت سے سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس فعل (اَنْسٰی یُنْسِی) کے مختلف صیغے سات جگہ آئے ہیں اور ان میں سے چھ مقامات پر دونوں مفعول مذکور ہوئے ہیں۔ صرف ایک (زیر مطالعہ) آیت میں پہلا مفول محذوف ہے۔ گویا یہاں ” نُنْسِھَا “ در اصل ” نُنْسِکَھَا “ سمجھا جائے گا (یعنی ہم بھلا دیتے ہیں تجھ کو وہ) اور ” وہ “ (ھَا) سے مراد آیت ہے جو پہلے مذکور ہے۔ اور یہاں مقدر (محذوف) ضمیر منصوب (کَ ) بظاہر مخاطب اول (رسول اللہ ﷺ) کے لیے ہے۔ ۔ اس طرح ” اَوْ نُنْسِھَا “ کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” یا ہم بھلا دیتے ہیں (تجھے) اس کو : یا ہم اتار دیتے ہیں (تیرے) ذہن سے اس کو : یا ہم فراموش کرا دیتے ہیں (تجھے : ذہنوں سے) اس کو “ … جسے اکثر مترجمین نے ” بھلا دیتے ہیں “ سے ترجمہ کیا ہے۔ ایک آدھ نے ” بھلا دیں “ (بصورتِ مضارع) کیا ہے۔ بعض نے ” فراموش کرنا : کرانا “ استعمال کیا ہے اور ایک نے ” ذہن سے اتار دینا “ سے کام لیا ہے۔ ۔ سوائے ایک مترجم کے سب نے ” نُنْسِ “ میں مستتر ضمیر (نَحْنُ = ہم) کا ترجمہ نہیں کیا ‘ بلکہ سابقہ فعل ” نَنْسَخْ “ کے ترجمہ میں ” ہم “ کے استعمال کو کافی سمجھا ہے۔ اسی طرح یہاں منصوب ضمیر مفعول (ھَا) کا ترجمہ بھی (غالباً محاورے کی بنا پر) اکثر نے نظر انداز کردیا ہے۔ اور سابقہ لفظ ” آیت “ (مِنْ آیۃٍ ) کے ذکر پر اکتفا کیا ہے (کیونکہ یہ ضمیر (ھَا) اسی (آیۃ) کے لیے ہے۔ صرف ایک دو مترجمین نے اس کے لیے ترجمہ میں ” اس کو : اسے “ کا اضافہ کیا ہے۔ اور بعض نے دوبارہ لفظ آیت استعمال کرتے ہوئے اس ” ھَا “ کا ترجمہ ” اس آیت (ہی) کو “ کی صورت میں کیا ہے۔ اسی طرح مقدر (غیر مذکور) مفعول اول کا ذکر بھی قریباً سب نے نظر انداز کیا ہے۔ صرف ایک آدھ نے اس کے لیے قوسین میں بطور وضاحت (تمہارے) اور ایک نے (ذہنوں سے) کے ساتھ ترجمہ کیا ہے … بلحاظِ مفہوم سب تراجم یکساں ہیں۔ 2: 64: 1 (2) [ نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا ] یہ تمام کلمات بھی پہلے گزر چکے ہیں ‘ اس لیے یہاں ہر ایک کا مختصراً ذکر اور گزشتہ حوالہ کافی ہوگا۔ A ” نَاْتِ “ جس کا مادہ ” ا ت ی “ اور وزن اصلی ” نَفْعِلُ “ ہے ‘ یہ ثلاثی مجرد کے فعل ” أَتَی یَأْتِی “ (در اصل أَتِیَ یَاْتِیُ ) سے فعل مضارع مجزوم کا صیغہ جمع متکلم ہے جو ابھی اوپر مذکور کلمہ ” نُنْسِ “ کی طرح تعلیل ہو کر نَأْتِیُ = نَأْتِیْ = نَأْتِ بنا ہے اور اب اس کا وزن ” نُفْعِ “ رہ گیا ہے۔ اس فعل مجرد (اَتَی یَاْتِی) کے باب ‘ معانی اور استعمال پر مفصل بات البقرہ : 23 [ 2: 17: 1 (4)] میں کلمہ ” فَاْتُوا “ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ یہاں اس کا ترجمہ ” بِ “ کے صلہ کی بناء پر (جو اگلے کلمہ ” بِخَیْرٍ “ کے شروع میں ہے) یعنی ” نَاْتِ بِ … = تو ہم لاتے ہیں “ --- ہوگا۔ B ” بِخَیْرٍ “ ابتدائی ” بِ “ تو فعل ” نَاْتِ “ کا صلہ ہے (جس سے فعل اَتٰی بِ … ” لے آنا “ کے معنی دیتا ہے) اور کلمہ ” خَیْرٍ “ یہاں افعل التفضیل کے معنی میں ہے ‘ یعنی ” بہتر ‘ زیادہ اچھا : اچھی “ … اس لفظ (خَیر) کے معنی اور استعمال پر البقرہ : 54 [ 2؛ 34: 1 (5)] میں بات ہوچکی ہے۔ C ” مِنْھَا “ جو دو کلمات (مِنْ + ھَا) کا مرکب ہے ‘ اس میں من یہاں ” تفضیلیۃ “ ہے اور محاورۃً (آگے نکلنا) کا مفہوم دیتی ہے۔ دیکھیے البقرہ : 3 [ 2: 2: 1 (5)] اور ھَا ضمیر مؤنث واحد غائب بمعنی ” اس “ ہے۔ یوں ” مِنْھَا “ کا ترجمہ ہوا ” اس سے : اس کے مقابلے پر : اس کی نسبت۔ “ D ” اَوْ مِثْلِھَا “ یہ بھی (اوپر مذکور ” اَوْ نُنْسِھَا “ کی طرح) در اصل تین کلمات ” اَوْ + مِثْلِ + ھَا کا مرکب ہے۔ ” اَوْ “ (بمعنی ” یا “ ) مختلف مفہوم دیتا ہے۔ دیکھیے البقرہ : 19 [ 2: 14: 1 (1)] ” مِثْل “ کا ترجمہ ” مانند ] جیسا ‘ ہم پلہ ‘ برابر “ اور ” کی مثل “ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لفظ کے مادہ ‘ معنی اور استعمال پر البقرہ : 23 [ 2: 17: 1 (6)] میں بات ہوئی تھی۔ اور ضمیر مجرور (ھا) کا ترجمہ ” اس کی : کا “ ہے مگر مثل کے ساتھ مل کر اس (مثلھا) کا ترجمہ ” اس جیسی ‘ ویسی ہی “ کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض نے ” مثل اس کے ‘ اس کے برابر اور ان کی مانند “ (آیت کو بمعنی جمع لے کر) بھی کیا ہے اور بعض نے صرف ضمیر کی بجائے اس کے مرجع کو بھی ساتھ لے کر ترجمہ ” اس آیت ہی کی مثل “ سے بھی کیا ہے۔ مفہوم سب کا ایک ہے۔ ۔ یوں اس حصہ آیت (نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” تو (اس ” تو “ کی وجہ آگے ” الاعراب “ میں بیان ہوگی) ہم لاتے : لے آتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر : اس کی مثل : مثل اس کی : اس جیسی : ویسی ہی۔ “ زیادہ تر مترجمین نے ان ہی مذکور متبادل الفاظ کے ساتھ ترجمہ کیا ہے ‘ البتہ اردو عبارت کی ساخت کے اعتبار سے فعل کا ترجمہ جملے کے آخر پر لائے ہیں۔ البتہ بعض نے بصورت مستقبل ترجمہ ” لائیں گے “ کے ساتھ کیا ہے ‘ جس کی بلحاظِ سیاقِ عبارت چنداں ضرورت نہ تھی۔ بعض مترجمین نے ” نَاْتِ بِ …“ کا ترجمہ ” پہنچاتے ‘ بھیج دیتے : نازل کردیتے ہیں “ کی صورت مین کیا ہے جو بلحاظ مفہوم درست ہے ‘ اگرچہ لفظ سے قدرے ہٹ کر ہے۔ بعض نے ضمیر ” ھَا “ کا ترجمہ دونوں جگہ (مِنْھَا اور مِثْلِھَا) ضمیر کے مرجع ” آیۃ “ (کے اسم ظاہر) کے ساتھ کیا ہے یعنی ” اس آیت سے بہتر یا اس آیت ہی کی مثل “ کی صورت میں … اور بعض نے ” مِثْلِھَا “ کا ترجمہ ” ویسی ہی اور آیت “ سے کیا ہے۔ یہ سب وضاحتی یا تفسیری ترجمے ہیں ‘ ورنہ ضمیر کا بصورتِ ضمیر ترجمہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ‘ بلکہ اکثر نے یہی کیا ہے۔ ۔ زیر مطالعہ آیت کے اس حصہ میں (جس پر ابھی دو حصے کر کے بات ہوئی ہے ‘ یعنی ” مَا نَنْسَخْ … نُنْسِھَا “ اور ” نَاْتِ … مِثْلِھَا “ کی صورت میں) اس کے مجموعی ترجمے میں یہ جو کسی آیت کو منسوخ کرنے یا بھلا دینے اور پھر ویسی ہی بلکہ اس سے بہتر آیت لانے کا ذکر ہے (اور قرآن کریم کی ایک اور آیت ” وَ اِذَا بَدَّلْنَا آیَۃً مَّکَانَ آیَۃٍ … الخ (النحل : 191) میں بھی یہی مضمون ہے) ۔ اس کا تعلق ” نسخ فی القرآن “ کی مشہور بحث سے ہے اور اس موضوع پر مستقل تصانیف بھی ہیں (جن میں ایک مصری عالم ڈاکٹر مصطفیٰ زید کی ایک ہزار صفحات پر مشتمل دو جلدوں میں شائع شدہ کتاب ” النسخ فی القرآن “ قابل ذکر ہے) اور تفسیری مباحث بھی … جن میں بہت کچھ افراط اور تفریط سے بھی کام لیا گیا ہے۔ بہرحال ” نسخ “ کی اصطلاحی تعریف (کسی ھکم کو ہمیشہ کے لیے اور ہر شخص کے لیے ختم کردینا) کے مطابق اور ان معنوں میں قرآن کریم کی کوئی آیت مطلقاً منسوخ نہیں ہے۔ جزوی اور وقتی نسخ کے لیے الگ اصطلاحات (عام ‘ خاص ‘ مطلق ‘ مقید وغیرہ) بھی موجود ہیں۔ اس بناء پر اس پیچیدہ بحث کے لیے کسی اچھی اور معتمد علیہ تفسیر یا اصول تفسیر یا علوم القرآن کی کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ۔ کی کتاب ” الکفوز الکبیر “ میں اس پر بہت عمدہ بحث کی گئی ہے ‘ جو اہل علم کے لیے تحقیق اور تفہیم کے نئے راستے بھی کھولتی ہے۔ 2: 64: 1 (3) [ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ] A ” اَلَمْ تَعْلَمْ “ کا ابتدائی ہمزہ (أَ ) استفہام کے لیے ہے (بمعنی ” کیا “ ؟ ) ہمزۂ استفہام سیاق و سباقِ عبارت کے مطابق متعدد مفہوم دیتا ہے۔ اس کے بعض استعمالات البقرہ : 6 [ 2: 5: 1 (3)] نیز البقرہ : 44 [ 2: 29: 1 (5)] میں بیان ہوئے تھے۔ یہاں یہ تعجب یا تقریر (اقرار) کا مفہوم دیتا ہے ‘ اور اگلا لفظ ” لَمْ تَعْلَمْ “ فعل علم یعلم بمعنی ” جاننا ‘ جان لینا “ سے صیغہ مضارع منفی بِلَم ہے۔ فعل ” عَلِم “ کے معنی و استعمال پر [ 1: 2: 1 (4)] اور [ 2: 10: 1 (3)] میں بات ہوئی تھی۔ اور فعل مضارع پر ” لَمْ “ کے استعمال اور اس کے اثر پر البقرہ : 33 [ 2: 23: 1 (2)] میں (اَلَمْ اَقُلْ کے ضمن میں) بات ہوئی تھی کہ لَمْ مضارع کو بلحاظ صورت جزم دیتا ہے اور بلحاظ معنی اسے ماضی منفی مع جحد (بزور انکار) بنا دیتا ہے۔ اس طرح یہاں ” اَلَمْ تَعْلَمْ “ کا ترجمہ بنتا ہے ” کیا تُو نے جانا ہی نہیں ؟ “ اسی کو بعض نے ” کیا نہ جانا تو نے ؟ “ اور ” کیا تم نہیں جانتے ؟ “ سے ترجمہ کیا ہے جبکہ بعض نے اسے مزید با محاورہ اور سلیس کرتے ہوئے ” کیا تجھ کو : تم کو : تجھے : تمہیں معلوم نہیں : خبر نہیں “ کی صورت دی ہے۔ لفظ ” معلوم “ فعل ” عَلِمَ “ سے اسم المفعول ہے اور اردو میں رائج اور معروف ہے۔ B ” اَنَّ اللّٰہَ “ (کہ بیشک اللہ تعالیٰ ) ۔ یہ ” أَنَّ “ بھی ”إنَّ “ کی اخوات (بہنوں) یعنی إِنَّ ‘ أَنَّ ‘ کَاَنَّ ‘ لَیْتَ ‘ لٰکِنَّ و لَعَلَّ “ میں سے ایک ہے ‘ جو حروف مشبہ بالفعل بھی کہلاتے ہیں اور جو سب اپنے اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں۔ ہر ایک پر بات اپنے موقع پر ہوتی۔ ” أَنَّ “ پر مختصراً بات البقرہ : 6 [ 2: 5: 1] میں ہوئی تھی۔ ”إِن “ اور ” أَنَّ “ دونوں کے معنی یکساں ہیں (بےشک ‘ یقینا ‘ بلا شبہ ‘ تحقیق) البتہ ان کے موقع استعمال میں فرق ہوتا ہے۔ گرامر کی بڑی کتابوں میں تو ان کے مواقع استعمال کے لمبے چوڑے قواعد لکھے ہوئے ہیں ‘ مثلاً یہ کہ دس مواقع ایسے ہیں جہاں لازماً ”إِنَّ “ (بکسرہ ہمزہ) آتا ہے۔ اور آٹھ مواقع ایسے ہیں جہاں لازماً ” أَنَّ “ (بفتح ہمزہ) آتا ہے اور نو کے قریب ایسے مواقع ہیں جہاں ”إَِٔنَّ “ دونوں طرح استعمال ہوسکتے ہیں۔ 1؎ 1؎ مثلاً چاہیں تو دیکھ لیجیے معجم النحو ‘ ص 69 تا 74 آپ مختصراً اتنا یاد رکھیں کہ کسی جملے کی ابتدا میں تو ہمیشہ ” إِنَّ “ ہی استعمال ہوتا ہے ‘ مگر جملے کے درمیان میں ” أَنَّ “ آتا ہے۔ البتہ فعل ” قَالَ یَقُولُ “ کے کسی صیغے کے بعد درمیان، کلام بھی ”إِنَّ “ آئے گا۔ مثلاً ” أَشْھَدُ أَنَّ …“ آتا ہے مگر ” أَقُولُ إِنَّ…“ کہیں گے۔ اس فرق کی وجہ سے ہی ”إِنّ “ کا ترجمہ تو ” بیشک اور یقینا “ کرتے ہیں مگر ” أَنَّ “ کا ترجمہ ” کہ بیشک۔ کہ یقینا “ کیا جاتا ہے۔ بلکہ اردو محاورے میں تو بعض دفعہ صرف ” کہ “ پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے ‘ جیسا کہ اس (زیر مطالعہ) موقع پر اکثر مترجمین نے کیا ہے۔ ۔ اسم جلالت (اللّٰہ) کے بارے میں لغوی بحث ” بسم اللّٰہ “ یعنی [ 1: 1: 2] میں گزری ہے۔ C ” عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ“ (ہر چیز پر ہر وقت اور ہر طرح سے قدرت رکھنے والا ہے) ۔ اس عبارت (کے تمام کلمات) پر البقرہ : 20 [ 2: 15: 1 (10 - 11)] میں بحث ہوچکی ہے۔ اور یہی عبارت قرآن کریم میں قریباً 35 مقامات پر آئی ہے۔ یہاں (اور باقی جگہوں پر بھی) اکثر نے ترجمہ ” ہر چیز پر قادر ہے “ سے کیا ہے۔ اردو محاورہ کے لحاظ سے یہ ترجمہ درست ہے۔ تاہم ہم نے اوپر جو ترجمہ لکھا ہے وہ قَادِرٌ (اسم الفاعل) اور قَدِیر (الصفۃ المشبھۃ) کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ شاید اسی لیے اردو کے بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ” قدرت رکھتا ہے “ اور ” سب کچھ کرسکتا ہے “ سے کیا ہے۔ 2: 64: 2: الاعراب زیر مطالعہ دو آیات میں سے ہر ایک بلحاظ مضمون دو الگ الگ جملوں پر مشتمل ہے ‘ اسی لیے دونوں آیتوں میں ہر جملے کے اختتام پر وقف مطلق کی علامت ” ط “ لگائی گئی ہے۔ پہلی آیت کا پہلا حصہ جملہ شرطیہ ہے ‘ یعنی یہ شرط اور جزاء (جوابِ شرط) دونوں پر مشتمل ہے۔ ہر ایک جملے کے اعراب کی تفصیل یوں ہے۔ A مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَا [ مَا ] موصولہ شرطیہ (بمعنی ” جو کچھ بھی کہ “ ) ہے جس کی وجہ سے اگلا صیغہ فعل [ ننسخ ] مجزوم ہے ‘ علامت جزم لام کلمہ (خ) کا سکون ہے۔ اور اس لحاظ سے ” مَا “ اس فعل کا مفعول مقدم ہے جو محلاً منصوب ہے ‘ جس میں مبنی ہونے کی وجہ سے کوئی ظاہری علامت نصب نہیں ہے۔ [ مِن ] جار اور [ آیۃٍ ] مجرور ہے۔ ا مرکب جاری میں اگر ” من “ کو تبعیض کے لیے سمجھا جائے تو پھر ” مِن آیۃٍ “ اس ” ما “ کی صفت بنے گا یعنی ” جو کچھ بھی کہ کی آیت میں سے “ یا ” جو کچھ حصہ آیت بھی “ اور چونکہ ” ما “ محلاً منصوب ہے لہٰذا یہ مرکب جاری بھی محلاً منصوب ہی ہوگا۔ اور اگر ” مِنْ “ زائدہ برائے تنصیص نکرہ سمجھیں تو پھر بلحاظ محل (موقع) اسم شرط (ما) کا حال یا اس کی تمیز بن سکتا ہے (حال اور تمیز ونوں منصوب ہوتے ہیں لہٰذا اس صورت میں بھی ” من آیۃ “ محلاً منصوب ہی بنے گا) حال ہو تو ترجمہ بنے گا ” جو کچھ بھی کہ کوئی بھی آیت ہوتے ہوئے (منسوخ ہو) “ اور تمیز کی صورت میں ترجمہ کچھ یوں ہوگا ” جو کچھ بھی کہ کسی بھی آیت کی مقار “ [ یہ ایسے ہے جیسے ” عنی رطلٌ زیتًا “ = میرے پاس ایک رطل (ایک پیمانہ) تیل ہے … کی بجائے کہہ سکتے ہیں ” عنی رطل مِن زیتٍ “ مطلب ایک ہی ہے ] ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ یہ حال یا تمیز والی بات الٹی طرف سے کان کو ہاتھ لگانے والا تکلف ہی ہے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ مرکب جاری (من آیۃ) کا تعلق ” مَا “ سے ہی ہے ‘ یا بصورتِ تبعیض یا بصورتِ تنصیص (اور دونوں صورتوں میں ترجمہ کا اصل فرق حصہ ” اللغۃ “ میں بیان ہوچکا ہے) ۔ [ وَ ] حرفِ عطف اور [ نُنْسِھا ] میں ” ننس “ مضارع صیغہ جمع متکلم ہے جو سابقہ مجزوم (بوجہ شرط) فعل ” نَنْسَخ “ پر معطوف ہو کر مجزوم ہے۔ علامت جزم حرفِ علت لام کلمہ (ی) کا سقوط ہے (اصل نُنْسِی تھا) ور ” ھا “ ضمیر منصوب اس فعل ” نُنْسِ “ کا مفعول بہ ہے۔ یہاں تک جملہ شرطیہ کا پہلا حصہ (بیانِ شرط) مکمل ہوتا ہے۔ آگے جوابِ شرط (جزائ) شروع ہوتا ہے۔ چناچہ [ نَاْتِ ] جو صیغہ مضارع جمع متکلم ہے اسی (جوابِ شرط ہونے کی) وجہ سے مجزوم ہے۔ علامت جزم یہاں بھی حرفِ علت لام کلمہ (جو یہاں بھی ” ی “ تھی) کا سقوط ہے (یہ در اصل ” نَاْتِیْ “ تھا) … شرط اور جزاء کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں ‘ ان میں سے بڑی واضح اور عمدہ صورت (شرط کے) مضارع مجزوم کے جواب میں مضارع مجزوم (بغیر ” فا “ کے) کا لانا ہے۔ اسی جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے ” نَاْتِ “ کے ترجمہ سے پہلے اردو میں ” تُو “ لگتا ہے۔ [ بخیرٍ ] جار (بِ ) اور مجرور (خَیْرٍ ) کا تعلق فعل ” نَاْتِ “ سے ہے۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ حرف الجر (بِ ) تو فعل (نَاْتِ ) کا صلہ ہے جس سے ” اَتٰی یَاْتِی بِ “ میں ” لے آنا “ کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح لفظ ” خَیْر “ یہاں مفعول ہونے کے لحاظ سے محلاً منصوب ہے کیونکہ اگر اس صلہ (بِ ) کے بغیر اس فعل کے یہی (لے آنا والے) معنی ہوتے تو عبارت ” نَاْتِ خَیْراً “ ہوتی [ منھا ] من حرف الجر یہاں تفضیلیۃ ہے جو افعل التفضیل کے ساتھ استعمال ہوتا ہے (جو یہاں ” خَیْر “ ہے) اور ” ھَا “ ضمیر مجرور مفضل منہ (جس پر فضیلت دی جائے) کے لیے ہے اور اس کا مرجع لفظ ” آیۃ “ ہے جو پہلے گزر چکا ہے (یعنی اس آیت سے زیادہ اچھی : بہتر) [ مِثْلِھَا ] مضاف (مثل) اور مضاف الیہ (ھا ۔ ضمیر مجرور) مل کر ” او “ کے ذریعے لفظ ” آیۃ “ ہی پر عطف ہے جس کے لیے ” ھا “ (ضمیر) پہلے بھی آچکی ہے۔ اب آپ اس بیان اعراب کے بعد حصہ اللغۃ میں بیان کردہ تراجم کی لغوی وجہ کے علاوہ نحوی وجہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں تک شرط اور جوابِ شرط مکمل ہو کر ایک مضمون ختم ہوا ہے ‘ لہٰذا یہاں وقف مطلق ہونا چاہیے۔ ؓ B اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ [ ا ] ہمزۂ استفہام برائے تقریر (اقرار کا مفہوم) ہے اور [ لَمْ تَعْلَمْ ] میں ابتدائی ” لَمْ “ حرفِ جازم مضارع ہے جس سے مضارع کے معنی الٹ کر (قلب ہو کر) ماضی اور وہ بھی منفی کے ہوجاتے ہیں ‘ اس لیے ” لَمْ “ کو حرفِ جزم و نفی و قلب بھی کہتے ہیں۔ ” تَعْلَمْ “ مضارع مجزوم ” بِلَمْ “ ہے ‘ علامت جزم لام کلمہ (م) کا سکون ہے [ اَنَّ ] حرفِ مشبہ بالفعل ہے اور [ اللّٰہَ ] اس کا اسم منصوب ہے ‘ علامت نصب آخری ” ھ “ کی فتحہ ہے۔ [ عَلٰی کل شیئٍ ] یہ مرکب جاری ہے جس میں ” عَلٰی “ حرف الجر کے بعد ” کّلِّ “ مجرور ہے اور آگے مضاف بھی ہے۔ علامت جر آخری ” لِ “ کی کسرہ ہے کیونکہ یہ خفیف (لام تعریف اور تنوین کے کے بغیر) بھی ہے اور ” شَیئٍ “ اس (کُل) کا مضاف الیہ (لہٰذا) مجرور ہے ‘ علامت جر تنوین الجر (-ٍ ) ہے اور یہ پورا مرکب جاری (علٰی کُلِّ شَیْئٍ ) متعلق خبر (مقدم) ہے ‘ یعنی اس کا تعلق اگلے لفظ [ قدیرٌ] سے ہے جو ” ان “ کی خبر مرفوع ہے۔ علامت رفع تنوین رفع (-ٌ) ہے۔ گویا اصل عبارت یوں بنتی تھی کہ ” اِنَّ اللّٰہ قدیرٌ علٰی کُلِّ شَیئٍ “ مگر فاصلہ (آیت کے آخری لفظ) کی رعایت سے متعلق خبر (” علٰی کُلِّ شَیْئٍ “ کو خبر (قدیرٌ) پر مقدم کردیا گیا ہے ‘ جس سے قدرت کے کمال اور وسعت کی تاکید کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ اسی تاکید کے مفہوم کو بعض نے ” سب کچھ کرسکتا ہے “ کے (ترجمے کے) ذریعے ظاہر کیا ہے۔
Top