Mutaliya-e-Quran - Maryam : 116
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا اللہُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحَانَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَ الْاَرْضِ : اور زمین كُلٌّ : سب لَهٗ : اسی کے قَانِتُوْنَ : زیر فرمان
ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اللہ پاک ہے ان باتوں سے اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں، سب کے سب اس کے مطیع فرمان ہیں
( وَقَالُوا : اور انہوں نے کہا ) (اتَّخَذَ : بنایا ) ( اللّٰہُ : اللہ نے ) (وَلَدًا : ایک بیٹا) (سُبْحَانَـــــہٗ : اس کی پاکیزگی ہے) (بَلْ لَّـــــہٗ : بلکہ اس کی ملکیت ہے) (مَا : جو کچھ) (فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : آسمانوں میں اور زمین میں ہے) (کُلٌّ لَّـــــہٗ : سب اس کی ) (قٰنِتُوْنَ : فرمانبرداری کرنے والے ہیں) و ل د وَلَدَ (ض) لِدَۃً ۔ وِلادۃً ۔ وِلَادًا (ض) : بچہ جننا۔ { وَلَا یَلِدُوْا اِلاَّ فَاجِرًا کَفَّارًا ۔ } (نوح) ” اور وہ لوگ نہیں جنیں گے مگر گنہگار ناشکرے کو “۔ وَالِدٌمؤنث وَالِدَۃٌ (اسم الفاعل): پیدائش کا باعث ہونے والا۔ والد ‘ باپ۔ { وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖ ز } (لقمان :33) ” تم لوگ ڈرو ایک ایسے دن سے جب کام نہیں آئے گا کوئی باپ اپنی اولاد کے “۔ { لَا تُضَارَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِھَا } (البقرۃ :233) ” ضرر نہ پہنچایا جائے کسی ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے ۔ “ وَالِدَانِ (وَالِدٌکاتثنیہ) : اصطلاحاً ماں باپ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔{ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط } (لقمان :14)” کہ تو شکر کر میرا اور اپنے ماں باپ کا “۔ مَوْلُوْدٌ (اسم المفعول) : پیدا کیا ہوا ‘ یعنی بچہ۔ { وَلَا مَوْلُوْدٌ ھُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ } (لقمان :33)” اور نہ کوئی بچہ کام آنے والا ہے اپنے باپ کے “۔ وَلَدٌ ج اَوْلَادٌ (اسم ذات) : بچہ یا بچی ‘ لیکن زیادہ تر عرف میں بیٹے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ” وَلَدٌ “ کا لفظ واحد ‘ جمع ‘ مذکر ‘ مؤنث ‘ سب کے لئے آتا ہے اور اس کی جمع اَوْلَادٌ ‘ وِِلْدَۃٌ ‘ اِلْدَۃٌ اور وُلْدٌ بھی آتی ہے۔ وَلِیْدٌ ج وِلْدَانٌ : فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ کم عمر لڑکا ۔ { وَیَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَج } (الدھر :19) ” اور پھریں گے ان کے گرد ہمیشگی دیئے ہوئے کم عمر لڑکے۔ “ ق ن ت قَنَتَ (ن) قُنُوْتًا : اطاعت کرنا ‘ فرمانبرداری کرنا۔ { وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ } (الاحزاب :31) ” اور جو فرمانبرداری کرے گی تم میں سے اللہ کی اور اس کے رسول کی۔ “ اُقْنُتْ (فعل امر) : تو اطاعت کر ‘ فرمانبرداری کر ۔ { یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ } (آل ‘ عمران :43) ” اے مریم ! آپ فرمانبرداری کریں اپنے رب کی۔ “ قَانِتٌ (اسم الفاعل) : فرمانبرداری کرنے والا ۔ { اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَائَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَائِمًا } (الزمر :9) ” یا وہ جو فرمانبرداری کرنے والا ہے رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرنے والا اور قیام کرنے والا ہوتے ہوئے۔ “ ترکیب : ” اِتَّخَذَ “ فعل ” اَللّٰہُ “ فاعل اور ” وَلَدًا “ مفعول ‘ یہ جملہ فعلیہ ” قَالُوْا “ کا مقولہ ہے ‘ جبکہ ” سُبْحٰـنَـــــہٗ “ جملہ معترضہ ہے۔ مفعول مطلق ہے فعل محذوف کا۔ ” بَلْ “ حرفِ عطف و اِضراب مقولہ کی تردید کے لئے آیا ہے۔ ” مَا “ موصولہ مبتدأ ہے ‘ اس کی خبر ” مَوْجُوْدٌ“ محذوف ہے ‘ جبکہ ” فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ “ اور ” لَـــــــــہٗ “ متعلق خبر ہیں۔ ” لَـــــــــہٗ “ کا لام ‘ لامِ تملیک ہے۔ ” کُلٌّ“ مبتدأ نکرہ ہے۔ لما فیہ من معنی العموم۔ ” قَانِتُوْنَ “ خبر اور ” لَـــــــــہٗ “ متعلق خبر ہیں۔ ” کُلٌّ “ ہمیشہ مضاف ہو کر استعمال ہوتا ہے ‘ اس کا مضاف الیہ محذوف ہے اور تقدیر عبارت یوں ہے :” کُلُّ اَحَدٍ مِّنْھُمْ “۔ یا ” کُلُّھُمْ “ مضاف الیہ کو حذف کر کے اس کے عوض میں ” کُلٌّ“ کے اوپر تنوین آگئی ۔ اس کو ” تنوین عوض “ کہتے ہیں۔ نوٹ (1) فعل ” اِتَّخَذَ “ دو مفعول کا تقاضا کرتا ہے کہ کس کو بنایا اور کیا بنایا ؟ اس آیت میں مفعول اوّل (کس کو بنایا) محذوف ہے اور صرف مفعول ثانی (کیا بنایا) مذکور ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس طرح سے اس نوعیت کے تمام عقائد کی تردیدہو گئی ہے۔ اگر مفعول اوّل مذکور ہوتا تو صرف مذکورہ عقیدے کی تردید ہوتی۔ نوٹ (2) اولاد کی ضرورت صاحب اولاد کی ذات کے کسی نقص کی دلیل ہوتی ہے۔ مثلاً صاحب اولاد کی ذات کا فانی ہونا ‘ تاکہ اولاد کی شکل میں اس کی ذات کا تسلسل برقرار رہے اور کوئی نام لینے والا ہو۔ یا صاحب اولاد کے کسی کام کا نامکمل رہ جانا ‘ تاکہ اولاد اس کے کام کو آگے بڑھائے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ جملہ معترضہ ” سُبْحٰـنَــــــہٗ “ سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر نوعیت کے نقص سے پاک ہے۔
Top