Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
[ وَاِذَا قِيْلَ : اور جب بھی کہا جاتا ہے ] [ لَھُمْ : ان لوگوں سے ] [ لَا تُفْسِدُوْا : تم لوگ نظم خراب مت کرو ] [ فِى الْاَ رْضِ ۙ : زمین میں ] [ قَالُوْٓا : وہ لوگ کہتے ہیں ] [ اِنَّمَا نَحْنُ : ہم تو بس ] [ مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے ہیں ] س د [ فسادا : (ن۔ ض) کسی چیز کا نظم بگڑ جانا، خراب ہونا، یہ صلح کی ضد ہے۔ [ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ : اور اگر نہ ہوتا اللہ کا دفع کرنا لوگوں کو، ان کے بعض کو بعض سے تو زمین بگڑ جاتی یعنی اجتماعی نظام کا توازن بگڑجاتا) [ فساد : اسم ذات ہے۔ نظم کی خرابی یا بگاڑ۔ [ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ : ظاہر ہوئی نظم کی خرابی، خشکی اور تری میں بسبب اسکے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے) [ افسادا۔ کسی چیز کا نظم بگاڑنا، خراب کرنا۔ [ وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰي وَقَوْمَهٗ لِيُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ : اور کہا سرداروں نے فرعون کی قوم میں سے ، کیا تو چھوڑتا ہے موسیٰ اور ان کی قوم کو تاکہ وہ لوگ انتظام کو بگاڑ دیں زمین میں ] [ مُفسِدُ : اسم الفاعل ہے، نظم بگاڑنے والا۔ اِنَّ يَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ : بیشک یاجوج اور ماجوج نظام بگاڑنے والے ہیں زمین میں) ۔ ص ل ح [ صلاحا : (ف) ۔ نظم کا ٹھیک ہونا، درست ہونا [ جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ : عدن کے باغات ، وہ لوگ داخل ہوں گے اس میں، اور جو درست ہوا ان کے آباواجداد میں سے اور ان کے جوڑوں میں سے اور ان کی اولاد میں سے ] [ صالح : اسم الفاعل ہے، نظم کا درست ہونے والا۔ صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے یعنی نیک [ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا : پس جو امید رکھتا ہے اپنے رب سے ملاقات کی، تو اسے چاہیے کہ وہ عمل کرے ، درست نظم والا عمل یعنی نیک عمل) [ اصلاحا : (افعال) ۔ نظم کو درست کرنا، نظم کی خرابی کو دور کرنا (اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا : سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کی اس کے بعد، اور نظم کی خرابی کو دور کیا ] [ مصلح : اسم الفاعل ہے۔ نظم کی خرابی کو دور کرنے والا، اصلاح کرنے والا، [ وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِـيُهْلِكَ الْقُرٰي بِظُلْمٍ وَّاَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ : اور نہیں ہے تیرا رب کہ وہ ہلاک کرے بستیوں کو ظلم کے ساتھ، اس حال میں کہ ان کے لوگ اصلاح کرنے والے ہوں) ترکیب قیل، ماضی مجہول ہے اور لھم اس کا متعلق فعل ہے ۔ لاتفسدوا فعل نہی ہے اور فی الارض اس کا متعلق فعل ہے نحن مبتدا ہے اور اسم الفاعل مصلحون اس کی خبر ہے۔ انھم میں ھم کی ضمیر ان کا اسم ہے اس کی خبر المفسدون معرف باللام ہے اس لیے درمیان میں ضمیر فاصل ھم لائی گئی ہے ۔ لایشعرون مضارع منفی ہے۔ نوٹ۔ اذ اور اذا۔ یہ دونوں الفاظ ظرف زمان ہیں یعنی ان دونوں میں کام کرنے یا ہونے کے وقت کا مفہوم ہوتا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ اذ میں وقت کی ابتدا کا مفہوم ہوتا ہے اس لیے اس کا بہتر ترجمہ ہے جس وقت یا جبکہ ، یہی وجہ ہے کہ اذ کے ترجمہ میں عموما ماضی کا مفہوم ہوتا ہے خواہ وہ مضارع پر آیا ہو لیکن اذا میں کسی معین وقت کا مفہوم نہیں ہوتا اس لیے اس کا بہتر ترجمہ ہے جب بھی یا جب کبھی بھی۔ چناچہ اذا کے ترجمہ میں عموما حال یا مستقبل کا مفہوم ہوتا ہے خواہ وہ ماضی پر آیا ہو۔ نوٹ۔ اِنَّمَا : ایک لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں کچھ نہیں سوائے اس کے کہ بات اتنی ہے بس کہ، جبکہ ، ان ما، دو لفظ ہیں۔ اس میں ما دراصل ما موصولہ ہے اور ان کا اسم ہے اس کے معنی ہیں بیشک وہ جو کہ بیشک جو کچھ کہ۔ قرآن مجید میں کہیں کہیں ان ما کو ملا کر انما لکھا گیا ہے لیکن عبارت میں فرق صاف پتہ چل جاتا ہے۔ نوٹ۔ اردو میں فساد کا لفظ لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت گری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یہ مفہوم لفط فساد کے لغوی مفہوم سے ہی ماخوذ ہے کسی معاشرے میں جب حقوق و فرائض کا توازن بگڑ جاتا ہے کچھ لوگوں کو ان کے حق سے زیادہ ملنے لگتا ہے اور کچھ لوگوں کی حق تلفی ہوتی رہتی ہے تو اس کا آخری نتیجہ پھر لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت گری کی شکل میں ہی سامنے آتا ہے۔
Top