Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 123
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : وہ دن لَا تَجْزِي : بدلہ نہ ہوگا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَفْسٍ : کسی شخص سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا تَنْفَعُهَا : اور نہ اسے نفع دے گی شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا هُمْ يُنْصَرُوْنَ : اور نہ ان مدد کی جائے گی
اور ڈرو اُس دن سے، جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا، نہ کوئی سفارش ہی آدمی کو فائدہ دے گی، اور نہ مجرموں کو کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی
(وَاتَّقُوْا : اور تم لوگ بچو) (یَوْمًا : ایک ایسے دن سے جب ) (لاَّ تَجْزِیْ : کام نہیں آئے گی ) (نَفْسٌ : کوئی جان ) (عَنْ نَّفْسٍ : کسی جان کے ) (شَیْئًا : کچھ بھی) (وَّلَا یُقْبَلُ : اور قبول نہیں کیا جائے گا) (مِنْھَا : اس سے ) (عَدْلٌ : بدلے میں کچھ ) (وَّلَا تَنْفَعُھَا : اور نفع نہیں دے گی اس کو) (شَفَاعَۃٌ : کوئی شفاعت ) (وَّلَا ھُمْ : اور نہ ہی وہ لوگ ) (یُنْصَرُوْنَ : مدد دیئے جائیں گے ) نوٹ (1) بلیغ کلام کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ بات کی ابتداء جامع بات سے ہوتی ہے ‘ پھر اس کی تفصیل بیان کی جاتی ہے ‘ اور بات ختم کرتے وقت خلاصہ کے طور پر جامع بات کا اعادہ کیا جاتا ہے ۔ جیسے ہم کہیں ” تکبر بہت بری چیز ہے “۔ پھر تکبر کی تعریف ‘ اس کی علامات ‘ اس کے اثرات اور نقصانات بیان کرنے کے بعد بات ختم کرتے ہوئے کہیں ” غرضیکہ تکبر بہت بری چیز ہے “۔ آیات زیر مطالعہ میں سورة البقرۃ کی آیت 47 کو لفظ بہ لفظ اور آیت 48 کو تھوڑی سی لفظی تبدیلی کے ساتھ دہرایا گیا ہے۔ یہ وہی بلاغت کا انداز ہے اور اس سے معلوم ہوگیا کہ بنواسرائیل سے براہ راست خطاب اب اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔
Top