Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے وِّجْهَةٌ : ایک سمت ھُوَ : وہ مُوَلِّيْهَا : اس طرف رخ کرتا ہے فَاسْتَبِقُوا : پس تم سبقت لے جاؤ الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يَاْتِ بِكُمُ : لے آئے گا تمہیں اللّٰهُ : اللہ جَمِيْعًا : اکٹھا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْر : قدرت رکھنے والا
ہر ایک کے لیے ایک رُخ ہے، جس کی طرف وہ مڑتا ہے پس بھلا ئیوں کی طرف سبقت کرو جہاں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں پا لے گا اُس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں
( وَلِکُلٍّ : اور سب کے لیے ) ( وِّجْھَۃٌ : توجہ کرنے کی کچھ سمتیں ہیں ) ( ھُوَ : وہ ) ( مُوَلِّیْھَا : پھیرنے والا ہے (خود کو) اس کی طرف ) ( فَاسْتَـبِقُوا : پس تم لوگ آگے نکلنے کا مقابلہ کرو ) ( الْخَیْرٰتِ : بھلائیوں میں ) ( اَیـْنَ مَا : جہاں کہیں بھی ) (تَــکُوْنُوْا : تم لوگ ہو گے ) ( یَاْتِ بِکُمُ اللّٰہُ : اللہ لے آئے گا تم لوگوں کو ) ( جَمِیْعًا : سب کے سب کو ) ( اِنَّ اللّٰہَ : بیشک اللہ ) ( عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ : ہر چیز پر ) ( قَدِیْرٌ: قدرت رکھنے والا ہے ) وَجَہَ (ض) وَجْھًا فُلَانًا : مُنہ پر مارنا اور رد کرنا۔ لوگوں کے نزدیک وجاہت میں بڑھ جانا۔ وَجُہَ (ک) وَجَاھَۃً : وجیہہ ہونا ‘ صاحب وجاہت ہونا۔ وَجَّہَ اِلٰی فُلَانٍ : کسی کے پاس جانا ۔ ہٗ اِلٰی فُلَانٍ : کسی کے پاس بھیجنا۔ ہُ الاَمِیرُ : باعزت بنانا۔ وَجَّہَ الشَّیْ ئَ : کسی طرف پھیردینا۔ { وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ } (الانعام :79) ” میں نے اپنا چہرہ پھیرلیا اس ہستی کی طرف جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا “۔ تَوَجَّہَ اِلَــیْہِ : متوجہ ہونا اور قصد کرنا۔ اَلْوَجْہُ : چہرہ ۔ ج اَوْجُہٌ وَوُجُوْہٌ وَاُجُوْہٌ۔ ” وِجْھَـۃٌ“ مصدر بمعنی قبلہ یا اسم مکان ہے۔ یعنی وہ سمت جس کی طرف رُخ کیا جائے۔ اوّل صورت میں ” واو “ کا موجود ہونا غیر قیاسی ہے۔ قیاس کا تقاضا ہے کہ اس کو حذف کردیا جائے ‘ لیکن صرف اصل پر تنبیہہ کرنے کے لیے باقی رکھا گیا ہے ۔ دوسری صورت میں ” واو “ کا بقاقیاسی ہے ‘ مراد ہر دو صورتوں میں وہ سمت ہے جس کی طرف رُخ کیا جائے۔ س ب ق سَبَقَ (ض) سَبْقًا : تیز چلنا ‘ آگے نکلنا۔ اس بنیادی مفہوم کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے : (1) کسی بات کا آگے نکلنا ‘ یعنی بات کا طے ہوجانا ‘ فیصلہ ہوجانا۔ { وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ۔ } (الصّٰفّٰت) ” اور آگے نکل چکا ہے ہمارا فرمان (یعنی ہمارا فیصلہ ہوچکا ہے ) ہمارے بھیجے ہوئے بندوں (یعنی رسولوں) کے لیے۔ “ (2) کسی کی پکڑ سے آگے نکلنا ‘ یعنی بھاگ نکلنا۔ { وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْاط } (الانفال :59) ” اور ہرگز گمان نہ کریں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہ وہ لوگ بھاگ نکلے۔ “ (3) کسی کام میں آگے نکلنا ‘ یعنی پہل کرنا ‘ سبقت کرنا۔ { لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَا اِلَیْہِط } (الاحقاف :11) ” اگر وہ ہوتابہتر تو وہ لوگ ہم پر سبقت نہ کرتے اس کی طرف۔ “ (4) کسی کی بات سے آگے نکلنا ‘ یعنی حکم عدولی کرنا ‘ نافرمانی کرنا۔ { لاَ یَسْبِقُوْنَــہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ ۔ } (الانبیائ) ” وہ لوگ نافرمانی نہیں کرتے اس کی بات میں اور وہ لوگ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ “ سَابِقٌ (اسم الفاعل) : آگے نکلنے والا۔ { وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِط } (یسٓ:40) ” اور نہ رات دن کے آگے نکلنے والی ہے۔ “ مَسْبُوْقٌ (اسم المفعول) : جس کی گرفت سے نکلا گیا ‘ یعنی بےبس کیا ہوا ‘ عاجز کیا ہوا۔ { وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ ۔ } (الواقعۃ) ” اور ہم عاجز کیے ہوئے نہیں ہیں۔ “ سَابَقَ (مفاعلہ) مُسَابَقَۃً : دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنا ‘ لپکنا۔ سَابِقْ (فعل امر) : تو آگے نکل ‘ تو لپک ۔ { سَابِقُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ } (الحدید :21) ” تم لوگ لپکو اپنے رب سے مغفرت کی طرف اور جنت کی طرف۔ “ اِسْتَـبَقَ (افتعال) اِسْتِبَاقًا : اہتمام سے آگے نکلنا ‘ یعنی آگے نکلنے کا مقابلہ کرنا ‘ دوڑ لگانا۔ { اِنَّا ذَھَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا } (یوسف :17) ” بیشک ہم گئے کہ ہم دوڑ لگاتے ہیں اور ہم نے چھوڑا یوسف (ں) کو اپنے سامان کے پاس۔ “ ترکیب : اس میں ” واو “ استیناف ہے۔ ” وِجْھَۃٌ“ مبتدأ نکرہ ہے۔ اس کی خبر ” مَوْجُوْدٌ“ محذوف ہے۔ ” لِکُلٍّ “ متعلق خبر تھا جو اَب قائم مقام خبر مقدم ہے۔ ” ھُوَ “ مبتدأ اور ” مُوَلِّیْھَا “ اس کی خبر ہے۔ ” مُوَلِّیْھَا “ میں اسم الفاعل ” مُوَلٍّ “ آیا ہے۔ مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ختم ہوئی تو ” مُوَلِّیْ “ ہوا۔ یہاں پر اسم الفاعل فعل کا کام کر رہا ہے جو دو مفعول کا تقاضا کرتا ہے۔ پورا جملہ اس طرح ہوتا : ” ھُوَ مُوَلٍّ نَفْسَہٗ اِلٰی تِلْکَ الْوِجْھَۃِ “۔ چونکہ دونوں مفعول ” نَفْسٌ“ اور ” وِجْھَۃٌ“ کی ضمیریں مضاف الیہ کے طور پر آئی ہیں اس لیے مفعول اوّل ” نَفْسٌ“ کی ضمیر کو محذوف کردیا گیا۔ یا تقدیر عبارت یوں ہے : ” لِکُلٍّ قِبْلَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا وِجْھَہٗ “۔ نیز یہ بھی احتمال ہے کہ ” ھُوَ “ ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ ہو۔ اس صورت میں تقدیر عبارت یوں ہوگی : ” اَللّٰہُ مُوَلِّیْھَا اِیَّاہُ “۔ ” فَاسْتَبِقُوْا “ فعل امر ہے۔ اس کا فاعل اس میں ضمیر مرفوع متصل واو ہے۔ ” اَلْخَیْرٰتِ “ اس کا مفعول ہے ‘ لیکن ” فَاسْتَبِقُوْا “ کو فعل لازم ہونے کی بنا پر مفعول کی ضرورت نہیں۔ اس کو پہلے حرفِ جر ” اِلٰی “ کے ذریعہ متعدی کیا گیا ۔ عبارت یوں ہے : ” فَاسْتَبِقُوْا اِلَی الْخَیْرٰتِ ‘ ‘ ۔ بعد میں ” اِلٰی “ کو حذف کردیا گیا اور ” اَلْخَیْرَاتِ “ کو منصوب کردیا گیا اور یہ منصوب علیٰ نزع الخافض ہے۔ ” اَیْنَمَا “ اسم شرط جازم منصوب علی الظرفیۃ المکانیۃ ہے۔ ” تَکُوْنُوْا “ فعل شرط مجزوم ” واو “ اس کا فاعل ” یَاْتِ “ جواب شرط فعل اور لفظ ” اللہ “ فاعل ” بِکُمْ “ جار مجرور متعلق ” یَاْتِ “ ” جَمِیْعًا “ حال ہے ” کُمْ “ ضمیر سے۔ { اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ} میں ” اِنَّ ‘ ‘ حرف مشبہ بالفعل ‘ لفظ ” اللہ “ اس کا اسم ” قَدِیْرٌ“ خبر اور ” عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ “ متعلق ” قَدِیْرٌ“ کے ہے۔ یہ جملہ اسمیہ تعلیلیہ ہے۔ ” لَا مَحْلَ لَھَا مِنَ الْاَعْرَابِ “ ۔ ” تَــکُوْنُوْا “ شرط ہونے کی وجہ سے اور ” یَاْتِ “ جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے حالت جزم میں ہیں۔ نوٹ (1) : اس آیت میں ہماری راہنمائی کی گئی ہے کہ ہر ایک نے اپنا اپنا قبلہ بنایا ہوا ہے اور وہ ادھر ہی رُخ کرے گا۔ اس لیے اپنے قبلہ کی برتری ثابت کرنے کے لیے بحث و مباحثہ میں وقت ضائع مت کرو ‘ کیونکہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ پس یہی وقت بھلائی کے کاموں میں صرف کرو اور اس میدان میں اپنے مدّمقابل سے آگے نکلنے کا مقابلہ کرو۔
Top