Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ١ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاَنْفِقُوْا : اور تم خرچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَلَا : اور نہ تُلْقُوْا : ڈالو بِاَيْدِيْكُمْ : اپنے ہاتھ اِلَى : طرف (میں) التَّهْلُكَةِ : ہلاکت وَاَحْسِنُوْا : اور نیکی کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنو ں کو پسند کرتا ہے
[ وَاَنْفِقُوْا : اور تم لوگ مال خرچ کرو ] [ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ : اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) ] [ وَلاَ تُلْقُوْا : اور تم لوگ مت پھینکو (اپنے آپ کو) ] [ بِاَیْدِیْکُمْ : اپنے ہاتھوں سے ] [ اِلَی التَّہْلُکَۃِ : بربادی کی طرف ] [ وَاَحْسِنُوْا : اور تم لوگ بلا کم وکاست کام (جہاد) کرو ] [ اِنَّ اللّٰہَ : یقینا اللہ ] [ یُحِبُّ : محبت کرتا ہے ] [ الْمُحْسِنِیْنَ : بلاکم وکاست کام کرنے والوں سے ] ھـ ل ک ھَلَکَ (ض) ھَلَاکًا : (1) تباہ و برباد ہونا۔ (2) کسی جاندار کا مردہ ہونا ‘ مرنا ‘ ہلاک ہونا۔ { ھَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ ۔ } (الحاقۃ) ” تباہ و برباد ہوئی (یعنی جاتی رہی) مجھ سے میری قوت “۔ { حَتّٰی اِذَا ھَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ مِنْ م بَعْدِہٖ رَسُوْلًا ط } (المؤمن :34) ” یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو تم لوگوں نے کہا ہرگز نہیں بھیجے گا اللہ ان (علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول “۔ ھَالِکٌ (اسم الفاعل) : ہلاک ہونے والا ‘ تباہ و برباد ہونے والا۔ { کُلُّ شَیْ ئٍ ھَالِکٌ اِلاَّ وَجْھَہٗط } (القصص :88) ” ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔ “ مَھْلِکٌ (اسم الظرف) : ہلاک ہونے کی جگہ یا وقت۔ { مَا شَھِدْنَا مَھْلِکَ اَھْلِہٖ } (النمل :49) ” ہم موجود نہیں تھے اس کے گھر والوں کے ہلاک ہونے کے وقت۔ “ تَھْلُکَۃٌ (اسم ذات) : تباہی ‘ بربادی ‘ ہلاکت۔ آیت زیر مطالعہ۔ اَھْلَکَ (افعال) اِھْلَاکًا : تباہ و برباد کرنا ‘ ہلاک کرنا۔ { اَھْلَکْتُ مَالًا لُّبَدًا ۔ } (البلد) ” میں نے برباد کیا ڈھیروں مال۔ “ { لَوْ شِئْتَ اَھْلَکْتَھُمْ مِّنْ قَـبْلُ } (الاعراف :155) ” اگر تو چاہتا تو ہلاک کرتا ان کو اس سے پہلے۔ “ مُھْلِکٌ (اسم الفاعل) : برباد کرنے والا ‘ ہلاک کرنے والا۔ { ذٰلِکَ اَنْ لَّمْ یَـکُنْ رَّبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا غٰفِلُوْنَ ۔ } (الانعام) ” یہ اس لیے کہ نہیں ہے تیرا رب بستیوں کا ہلاک کرنے والا ظلم سے اس حال میں کہ اس کے لوگ غافل ہوں۔ “ ترکیب : انفاق کا لفظ مال خرچ کرنے کے لیے ہی آتا ہے اس لیے ” اَنْفِقُوْا “ کا مفعول محذوف ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ سیاق وسباق کے لحاظ سے اس آیت میں ” فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ “ سے مراد جہاد ہے اس لیے اس کے بعد ” لِلْجِھَادِ “ محذوف مانا جائے گا۔ ” وَلَا تُلْقُوْا “ کا مفعول ” اَنْفُسَکُمْ “ محذوف ہے ‘ جبکہ ” اَمْوَالَــکُمْ “ کو محذوف ماننے کی بھی گنجائش ہے۔ نوٹ (1) : مسلمانوں میں کچھ تربیت یافتہ پہلوان پائے جاتے ہیں جو قرآن کے ساتھ کشتی لڑتے ہیں۔ ایسے لوگ اس آیت میں ” وَلَا تُلْقُوْا “ کے بعد ” اَنْفُسَکُمْ “ کے بجائے ” اَمْوَالَـکُمْ “ کو محذوف مانتے ہیں اور مطلب یہ نکالتے ہیں کہ جہاد کے لیے خرچ کر کے اپنا مال تباہی کی طرف مت پھینکو۔ یہ کھلی اور ننگی جہالت ‘ بددیانتی اور دھوکہ دہی ہے۔ ان کی اتنی بات تو درست ہے کہ گرامر کے لحاظ سے یہاں ” اَمْوَالَــکُمْ “ کو محذوف ماننے کی گنجائش ہے ‘ لیکن ایسی صورت میں اس آیت کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جہاد کے لیے مال خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں سے اپنے مال کو تباہی کی طرف مت پھینکو ‘ یعنی اگر جہاد پر خرچ نہیں کرو گے تو تمہارا مال تباہ ہوجائے گا۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ جو قومیں جہاد ترک کردیتی ہیں وہ خود بھی تباہ و برباد ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ ان کا مال بھی مٹی ہوجاتا ہے۔ نوٹ (2) : اس آیت سے فقہاء نے یہ حکم بھی نکالا ہے کہ مسلمانوں پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی دوسرے حقوق فرض ہیں (یعنی ان کے مال میں) ‘ مگر وہ نہ دائمی ہیں اور نہ ان کے لیے کوئی نصاب متعین ہے ‘ بلکہ جب اور جتنی ضرورت ہو اس کا انتظام کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ (معارف القرآن) ۔ حضرت ابوایوب انصاری ؓ کا قول ہے کہ اس آیت میں ہلاکت سے مراد ترک جہاد ہے ‘ اسی لیے انہوں نے ساری عمر جہاد میں صرف کردی اور قسطنطنیہ میں شہید ہو کر وہیں مدفون ہوئے۔ (معارف القرآن)
Top