Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 227
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر عَزَمُوا : انہوں نے ارادہ کیا الطَّلَاقَ : طلاق فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : خوب سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر اُنہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
[ وَاِنْ : اور اگر ] [ عَزَمُوا : وہ لوگ پختہ ارادہ کریں ] [ الطَّلاَقَ : طلاق کا ] [ فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [ سَمِیْعٌ : سننے والا ہے ] [ عَلِیْمٌ : جاننے والا ہے ] ع ز م عَزَمَ (ض) عَزْمًا : پختہ ارادہ کرنا۔ { فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِط } (آل عمران :159) ” پھر جب آپ ﷺ پختہ ارادہ کرلیں تو بھروسہ کریں اللہ پر۔ “ عَزْمٌ (اسم ذات) : پختہ ارادہ ‘ ثابت قدمی۔ { فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ۔ } (آل عمران) ” تو یقینا یہ ثابت قدمی کے کاموں میں سے ہے۔ “ ط ل ق طَلَقَ (ض) طَلْقًا : کسی کا بندھن کھولنا۔ طَلَاقٌ (اسم فعل) : نکاح کا بندھن کھولنا ‘ طلاق دینا ‘ آیت زیر مطالعہ۔ طَلَّقَ (تفعیل) تَطْلِیْقًا : کسی کو آزاد کر کے جدا کرنا ‘ طلاق دینا۔{ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ…} (البقرۃ :230) ” پھر اگر وہ طلاق دے اس کو تو وہ حلال نہیں ہوتی اس کے لیے اس کے بعد…“ طَلِّقْ (فعل امر) : تو طلاق دے۔{ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ } (الطلاق :1) ” جب تم لوگ طلاق دو عورتوں کو تو طلاق دو ان کی عدت کے لیے۔ “ مُطَلَّقَۃٌ (اسم المفعول) : طلاق دی ہوئی۔ { وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِط } (البقرۃ :241) ” اور طلاق دی ہوئی عورتوں کے لیے کچھ سامان ہے دستور کے مطابق۔ “ اِنْطَلَقَ (انفعال) اِنْطِلَاقًا : کسی بندھن سے آزاد ہونا ‘ چل پڑنا۔ { فَانْطَلَقُوْا وَھُمْ یَتَخَافَتُوْنَ ۔ } (القلم) ” پھر وہ چلے اور ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہتے تھے۔ “ { وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ } (الشعرائ :13) ” اور نہیں چلتی میری زبان۔ “ اِنْطَلِقْ (فعل امر) : تو چل۔ { اِنْطَلِقُوْآ اِلٰی مَا کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ ۔ } (المرسلٰت) ” تم لوگ چلو اس کی طرف جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ “ نوٹ (1) : اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے قطع تعلق کا عہد کرلیتا ہے لیکن اسے طلاق بھی نہیں دیتا ‘ تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ چار مہینے کے اندر فیصلہ کرے۔ یا تو تعلقات بحال کرے یا پھر طلاق دے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی اللہ کے حکم پر عمل نہیں کرتا اور اپنی روش پر قائم رہتا ہے تو پھر کیا ہوگا ! اس ضمن میں آراء مختلف ہیں۔ مفتی محمد شفیع (رح) کی رائے ہے کہ ایسی صورت میں چار ماہ بعد طلاق خود بخود ہوجائے گی ‘ البتہ دونوں اگر رضامندی سے دوبارہ نکاح کرلیں تو درست ہے۔ (معارف القرآن)
Top