Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ در حقیقت وہ مومن نہیں ہیں
[ وَمِنَ النَّاسِ : اور لوگوں میں سے ] [ مَنْ : وہ (بھی) ہیں جو ] [ يَّقُوْلُ : کہتے ہیں ] [ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے ] [ بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اللہ پر اور آخری دن پر ] [ وَ : حالانکہ ] [ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ : وہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں ] ق و ل [ قولا : (ن) کہنا، بولنا۔ وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً (اور جب کہا آپ کے رب نے بیشک میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ) قیل ماضی مجہول ہے ۔ کہا گیا۔ یقال ۔ مضارع مجہول ہے کہا جاتا ہے مَا يُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِيْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ ۭ، (نہیں کہا جاتا آپ سے مگر جو کہا گیا ہے رسولوں سے آپ سے پہلے) قیل، اسم ذات ہے بات۔ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِيْلًا (اور اللہ سے زیادہ سچا کون ہے بلحاظ بات کے) قول۔ ج اقوال، جمع کی جمع، اقاویل۔ اسم ذات ہے بات ہے۔ (اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ ، وَّمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۭ](یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کی بات نہیں ہے) ۔ قل۔ فعل امر ہے تو کہہ۔ (قُلْ ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰهُ ) آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ زیادہ جانتے ہو یا اللہ) ۔ قائل۔ اسم الفاعل ہے کہنے والا۔ قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ ) (کہا ان میں سے ایک کہنے والے نے تم لوگ قتل مت کرو یوسف کو) تقولا۔ بات گھڑنا۔ کسی طرف ایسی بات منسوب کرنا جو اس نے نہیں کہی۔ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ ، لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ) اور اگر وہ غلط منسوب کرتے ہم پر باتوں میں کوئی تو ہم ضرور پکڑتے ان کو قوت کے ساتھ) ترکیب۔ آیت زیر مطالعہ کی ترکیب پہلے ایک مثال سے سمجھ لیں۔ اگر ہم کہیں کہ من الناس کافر، تو اس میں من الناس قائم مقام خبر مقدم ہے جبکہ خبر موجود محذوف ہے اور کافر مبتدا موخر ہے اس کا سادہ جملہ ہوتا الکافر موجود من الناس۔ اور اس کا مطلب ہوتا کہ کافر یعنی خاص کافر لوگوں میں موجود ہے ۔ لیکن جب مبتدا کو موخر کرکے نکرہ کردیا تو اب من الناس کافر کا مطلب ہوگیا کہ لوگوں میں سے کوئی کافر ہے یعنی لوگوں میں سب کافر نہیں ہیں بلکہ کچھ کافر ہیں یہ رعایت اردو میں لفظ بھی سے ادا ہوتی ہے اس لیے اس جملہ کا ترجمہ ہوگا لوگوں میں کافر بھی ہیں اسی طرح ومن الناس من یقول من الناس، قائم مقام خبر مقدم ہے جبکہ خبر موجود محذوف ہے اور من یقول مبتدا موخر ہے اس کا بامحاورہ ترجمہ ہوگا لوگوں مین وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں وما ھم بمومنین مین ھم مبتدا ہے جبکہ مومنین اسم الفاعل ہے اور ما کی خبر ہے۔ نوٹ۔ لفظ ، من ، کے متعلق یہ بات نوٹ کرلیں کہ واحد ، تثنیہ، جمع، مذکر، مونث، سب کے لیے من ہی استعمال ہوتا ہے اس آیت میں من کے بعد یقول واحد کے صیغہ میں لا کر اس کی لفظی رعایت کی گئی ہے کیونکہ من اصلا واحد لفظ ہے اس کے آگے امنا جمع کے صیغے میں لا کر اس کی معنوی رعایت کی گئی ہے کیونکہ یہاں من جمع کے معنی میں آیا ہے۔ نوٹ۔ اوپر ترجمہ میں آپ نے نوٹ کرلیا ہوگیا کہ وما ھم بمومنین کے واو کا ترجمہ اور کے بجائے حالانکہ کیا گیا ہے، اس کی وجہ سمجھ لیں۔ واو کی تین قسمیں زیادہ مستعمل ہیں ایک واو قیمہ ہے جس کے معنی ہیں قسم ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ یہ اپنے اسم کو جر دیتا ہے۔ جیسے والعصر (قسم ہے زمانے کی) ایک واو عاطفہ ہے جس کے معنی ہیں یعنی یہ کوئی اعرابی تبدیلی نہیں لاتے اس لیے ان کی پہچان عبارت کے مفہوم سے ہوتی ہے حضور ﷺ کی ایک تعلیم کردہ دعا میں واو حالیہ اور واو عاطفہ کافوی تقابل بہت واضح ہے۔ اللھم انی اعوذبک۔ اے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ ان اشرک بک۔ کہ میں (کسی کو) شریک کروں تیرے ساتھ۔ واعلم۔ اس حال میں کہ میں جانتا ہوں ۔ واستغفرک۔ اور میں مغفرت مانگتا ہوں تجھ سے ۔ بما لا اعلم۔ اس کی جو میں نہیں جانتا۔ آیت زیر مطالعہ کے آخری حصہ کا واو بھی حالیہ ہے اس لیے اس کا ترجمہ ، حالانکہ کیا گیا ہے۔
Top