Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 93
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اسْمَعُوْا١ؕ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا١ۗ وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ١ؕ قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُكُمْ بِهٖۤ اِیْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد وَرَفَعْنَا۔ فَوْقَكُمُ : اور ہم نے بلند کیا۔ تمہارے اوپر الطُّوْرَ : کوہ طور خُذُوْا۔ مَا آتَيْنَاكُمْ : پکڑو۔ جو ہم نے تمہیں دیا ہے بِقُوْةٍ : مضبوطی سے وَاسْمَعُوْا : اور سنو قَالُوْا : وہ بولے سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَعَصَيْنَا : اور نافرمانی کی وَأُشْرِبُوْا : اور رچا دیا گیا فِیْ : میں قُلُوْبِهِمُ : انکے دل الْعِجْلَ ۔ بِكُفْرِهِمْ : بچھڑا۔ ان کے کفر کے سبب قُلْ : کہہ دیں بِئْسَمَا : کیا ہی براجو يَأْمُرُكُمْ ۔ بِهٖ : تمہیں حکم دیتا ہے۔ اس کا اِیْمَانُكُمْ : ایمان تمہارا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُؤْمِنِينَ : مومن
پھر ذرا اُس میثاق کو یاد کرو، جو طُور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا، مگر مانیں گے نہیں اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا کہو: اگر تم مومن ہو، تو عجیب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے
[ وَاِذْ اَخَذْنَا : اور جب ہم نے لیا ] [ مِيْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد ] [ وَرَفَعْنَا : اور ہم نے بلند کیا ] [ فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ : تمہارے اوپر کوہ طور کو ] [ ۭخُذُوْا : کہ تم لوگ پکڑو ] [ مَآ اٰتَيْنٰكُمْ : اس کو جو ہم نے دیا تم کو ] [ بِقُوَّةٍ : عمل کی قدرت سے ] [ وَّاسْمَعُوْا ۭ: اور تم لوگ سنو ] [ قَالُوْا : انہوں نے کہا ] [ سَمِعْنَا : ہم نے سنا ] [ وَعَصَيْنَا ۤ : اور ہم نے نافرمانی کی ] [ وَاُشْرِبُوْا : اور پلادی گئی ] [ فِيْ قُلُوْبِهِمُ : ان کے دلوں میں ] [ الْعِجْلَ : بچھڑے کی محبت ] [ بِكُفْرِھِمْ ۭ : ان کے کفر کے سبب ] [ قُلْ بِئْسَمَا : آپ کہہ دیجیے کتنا برا ہے وہ ] [ يَاْمُرُكُمْ بِهٖٓ: تم کو حکم دیتا ہے جو ] [ اِيْمَانُكُمْ : تمہارا ایمان ] [ اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم لوگ ] [ مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے ہو ] [ وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ ] ۔ ” وَاِذ “ (اور جب - یاد کرو جب) ” اِذ “ کے لیے دیکھئے [ 2:21:1 (1)] ۔ ” اَخَذْنَا “ (ہم نے پکڑا - لیا) اصل فعل مجرد کے مادہ وزن وغیرہ پر البقرہ :48 [ 2:31:1 (5)] میں بات ہوئی تھی۔ ۔ ” میثاقکم “ لفظ ” میثاق “ (جو یہاں ضمیر مجرور ” کم “ (تمہارا) کی طرف مضاف ہے) کے مادہ (و ث ق) سے فعل مجرد وغیرہ کی بات کے علاوہ خود اسی لفظ ” میثاق “ کے وزن (مِفْعال) اور شکل اصلی (مِوْثاق) مع تعلیل وغیرہ کی بحث :27 [ 2:19:1 (14)] میں تفصیل کے ساتھ ہوچکی ہے اور وہیں میثاق کے معنی (عہد وغیرہ) پر بھی بات ہوئی تھی۔ ” میثاقکم “ ” تمہارا عہد “ اور مراد ہے ” تم سے عہد (لیا) “ اور بعینہٖ یہی جملہ (واذ اخذنا میثاقکم) پہلی دفعہ البقرہ :63 [ 2:41:1] میں مع تراجم وغیرہ گزر چکا ہے۔ ؤ [ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ ] یہ پورا جملہ اسی طرح پہلی دفعہ البقرہ :63 [ 2:41:1] میں زیر بحث آچکا ہے جہاں ” رفع یرفع “ (اٹھانا) ” فوق “ (اوپر) اور ” الطور “ (پہاڑ) کی لغوی بحث کے علاوہ اس جملہ کے تراجم بھی مذکور ہوئے ہیں۔ مزید بحث آگے ” الاعراب “ میں آئے گی۔ ؤ [ خُذُوْا مَآاٰتَیْنَکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا ] اس کا ابتدائی (خذوا ما آتینکم بقوۃٍ ) بعینہٖ اسی طرح پہلی دفعہ البقرہ :63 [ 2:41:1] میں گزر چکا ہے، جہاں اس کے کلمات مثلاً ” خذوا “ کے مادہ (اخ ذ) اور اس کے وزن اور باب فعل کے معنی (لینا۔ پکڑنا) ” مَا “ (موصولہ بمعنی جو کہ : جو کچھ کہ) اور آتیناکم (برسم املائی) کے فعل ” آتینا “ (ہم نے دیا) کے مادہ (أت ی) باب افعال سے اس کے استعمال (اَتی یُؤتی) کے طریقے، نیز لفظ ” قوۃ “ کے مادہ (ق وو) وغیرہ پر بات ہوئی تھی۔ اور اس کے مختلف تراجم اور ان کی وجہ بھی زیر بحث آئی تھی۔ صرف آخری لفظ ” واسمعوا “ وہاں نہیں آیا تھا۔ تاہم اس لفظ ” اِسْمَعُوْا “ (جس کا وزن ” اِفْعَلُوْا “ یعنی صیغہ امر ہے اور ابتدائی ” و “ تو عاطفہ ہے) کے مادہ (س م ع) سے فعل مجرد کے معنی (سننا) پر یوں تو [ 2:6:1 (3)] میں کلمہ ” سَمْعٌ“ کے ضمن میں بھی بات ہوئی تھی اور خاص فعل مجرد پر [ 2:47:1 (3)] میں دوبارہ بحث گزری ہے۔ اس طرح یہاں ” واسمعوا “ کا ترجمہ (باقی جملے کے تراجم کا حوالہ اوپر دے دیا گیا ہے۔ ) ” اور تم سنو “ اور یہی ترجمہ سب نے کیا ہے، صرف ایک صاحب نے ” مان لو “ سے ترجمہ کیا ہے جو بلحاظ مفہوم درست بھی سمجھا جائے مگر اصل عبارت سے بہت دور ہے اور اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ؤ [ قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا ] اس جملے کے تینوں کلمات (قالو۔ سَمعنا اور عصینا) کے مادے تو پہلے گزر چکے ہیں بلکہ مادہ کے ساتھ ہی ان کے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر بھی بات ہوچکی ہے (اور یہاں یہ تینوں فعل مجرد کے صیغے ہی ہیں) ۔ مثلاً ” قالوا “ کے مادہ (ق و ل) کے فعل ” قال یقول “ (کہنا) پر تو البقرہ :8 [ 2:7:1 (5)] میں کلمہ ” یقول “ کے سلسلے میں بات ہوئی تھی اور خود اسی لفظ (قالوا) کے مادہ باب، وزن اور تعلیل وغیرہ پر [ 2:9:1 (4)] کے بعد بات ہوچکی ہے۔ (یعنی انہوں نے کہا : وہ بولے : کہنے لگے وغیرہ) ۔ ” سَمِعْنَا “ کا فعل سمِعَ یَسمَع (سننا) [ 2:6:1 (3)] میں زیر بحث آچکا ہے۔ اس کا ترجمہ ہے ” ہم نے سنا۔ سن لیا “ ۔ ” عَصَیْنَا “ یہ صیغہ فعل جس کا مادہ (ع ص ی) اور وزن ” فَعَلْنَا “ ہے۔ اس کے فعل مجرد (عَصَی یَعْصِی) کے باب اور معنی (نافرمانی کرنا، …کے حکم پر عمل نہ کرنا۔ بجا نہ لانا) وغیرہ پر بھی البقرہ :61 [ 2:39:1 (18)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ؤ یوں اس عبارت کا لفظی ترجمہ بنا ” انہوں نے کہا ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی “ اسی مفہوم کو ” ہم نے سنا اور نہ مانا “ ، ” سنا ہم نے اور مانا نہیں “ سے بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ بعض نے یہاں ضرورتاً ” وَ “ کا ترجمہ ” مگر “ یا ” لیکن “ سے کیا ہے (یعنی اردو محاورے کی خاطر) مثلاً ” ہم نے سن تو لیا مگر ہم نے مانا نہیں “ اور ” ہم نے سن تو لیا لیکن دل نہیں مانتا “ یا (زبان سے کہا)” ہم نے سنا تو سہی لیکن ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے “ یا ” انہوں نے زبان سے کہہ دیا کہ ہم نے سن لیا اور ان سے عمل نہ ہوگا۔ “ کی صورت میں ترجمے کیے ہیں۔ تمام تراجم کا خلاصہ مطلب یہی بنتا ہے کہ ظاہراً بات قبول کی مگر اس پر عمل نہ کرسکے کیونکہ نیت ہی خراب تھی۔ آج ہم اسلام اور قرآن کے ظاہری نعروں اور دعووں کے ساتھ اپنے انفرادی اور اجتماعی عمل سے جو کچھ ظاہر کررہے ہیں وہ بعینہٖ ” سمعنا و عَصَینا “ کی تصویر ہے۔ خیال رہے کہ عربی زبان کے محاورے کے مطابق جب کسی بات یا حکم کو سن کر، سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہونے، اسے بجا لانے کا بھی اقرار اور اظہار کرنا ہو تو کہتے ہیں ” سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا “ (ہم نے سنا اور بجا لائے) یا ” اَلسمعَ والطاعۃ “ (ہمارا کام ہی سن لینا اور پھر عمل کرنا ہے) اردو میں ایسے موقع پر عموماً ” جی۔ بہت اچھا۔ ٹھیک ہے جناب “ وغیرہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں جس سے اسی بات کا اظہار مقصود ہوتا ہے کہ ” ہم نے آپ کی بات سن لی اور سمجھ بھی لی ہے اور اس کے مطابق عمل بھی کریں گے۔ “ - چونکہ موقع پر زبان سے تو ” عصینا “ (ہم نہیں مانتے) کھل کر کوئی نہیں کہے گا اس لیے وضاحتی کلمات ” زبان حال “ یا شامل معنی ” عمل نہ کرنا “ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ ” سمعنا واطعنا “ کے استعمال پر مزید بات البقرہ :285 میں ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ؤ [ وَاُشْرِبُوْا فِی قُلُوْبِھِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِھِمْ ] اس حصہ آیت کے تمام کلمات کے اصل مادے (اور بعض دفعہ اصل کلمات بھی) پہلے اپنی اپنی جگہ زیر بحث آچکے ہیں تاہم بلحاظ موجودہ استعمال کے کم از کم ایک لفظ ” اشرِبوا “ نیا ہے (اسی لیے یہاں اس کو نمبر برائے حوالہ بھی دیا گیا ہے) اور اسی لیے ہم پہلے اسی کو زیر بحث لاتے ہیں، باقی کلمات کا صرف ترجمہ (اور صاحب ضرورت کے لیے) گزشتہ حوالہ ذکر کرنا کافی ہوگا۔ 2:57:1 (1) [ اُشْرِبُوْا ] کا مادہ ” ش ر ب “ اور وزن ” اُفْعِلُوْا “ ہے اس مادہ سے فعل مجرد ” شیب یَشرَب “ کے باب اور معنی (پینا) وغیرہ پر البقرہ :60 [ 2:38:1 (10)] میں بات ہوچکی ہے۔ ؤ زیر مطالعہ لفظ ” اُشْربوا “ اس مادہ سے باب افعال کا فعل ماضی مجہول صیغہ جمع مذکر غائب ہے اس باب سے فعل ” اَشْرَبَ یُشرِبُ اِشْرابًا “ کے بڑے اور بنیادی معنی تو ہیں ” پلانا۔ پلا کر سیراب کردینا۔ یا کسی کو پینے پر لگا دینا (جعلہ یشرَب) تاہم یہ فعل متعدد معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نیز یہ فعل لازم متعدی دونوں طرح آتا ہے۔ مثلاً ۔ بطور فعل لازم اس کے معنی ہیں ” جی بھر کر پی لینا یا سیراب ہوجانا “ (یعنی ” رَویَ “ ) اور اسی کے معنی ہیں ” پیاس لگنا یا پیاسا رہ جانا “ (یعنی ” عَطِش “ ) گویا یہ بطور فعل لازم لغت اضداد میں سے ہے۔ پھر اس کے مفہوم میں خود کسی آدمی کا ” سیراب ہونا “ یا ” پیاسا ہونا “ بھی آتا ہے اور اس کے اونٹوں وغیرہ کا بھی مثلاً ” اَشْرَبَ الرجلُ “ کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ آدمی سیراب ہوگیا یا اسے پیاس لگی “ اور یہ بھی کہ ” اس آدمی کے اونٹ سیراب ہوگئے یا پیاسے رہے یعنی ” الابل “ (اونٹ) کا لفظ لگائے بغیر اس فعل کے یہ معنی ہوتے ہیں۔ ؤ زیادہ تر یہ فعل متعدی استعمال ہوتا ہے اور اس میں بھی یہ کئی معنی کے لیے آتا ہے مثلاً : ۔ اس کے مشہور اور بنیادی معنی (جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے) ”…کو خوب پلانا یا کسی کو پینے پر لگا دینا “ ہیں۔ اس کا مفعول بنفسہٖ آتا ہے مثلاً کہتے ہیں ” اَشْرَبَہُ “ (اس نے اسے خوب پلایا، سیراب کردیا۔ ) ۔ یہ ” مقید “ کرنا اور ” گلے میں رسی ڈالنا “ کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً کہتے ہیں ” اَشْرَبَ الابل “ (اس نے اونٹوں کو (کسی جگہ) مقید کردیا) اور ” اَشْرَبَ الخیلَ “ (اس نے گھوڑوں کے گلے میں رسیاں ڈالیں یعنی باندھ دیے) ۔ یہ فعل ” رنگ کو گہرا کردینا “ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں ” اَشرَب اللونَ “ (اس نے رنگ کو مزید بڑھادیا۔ گہرا کردیا۔ پھیلا دیا۔ ) ۔ کبھی یہ دو مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، مثلاً کہیں گے ” اَشرَبَ البیاضَ حُمْرَۃً “ (اس نے رنگ کی سفیدی میں سرخی ملا دی یا نمایاں کردی) اسی استعمال سے نبی کریم ﷺ کے حلیہ مبارک میں حضور ﷺ کے چہرہ کا رنگ بیان کرتے ہوئے (حدیث میں) آیا ہے ” ابیضُ مُشْرَبٌ حُمْرۃً “ (سفید رنگ کہ پلایا ہوا تھا سرخی یعنی نمایاں سرخی مایل سفید رنگ) اور اسی مفہوم میں کہتے ہیں ” اَشْرَبَ الثوبَ حُمْرۃً “ (اس نے کپڑے کے رنگ پر سرخی چڑھا دی۔ یعنی کپڑے کو پلا دی یا اس میں نمایاں کردی) اور ابھی اوپر بیان کردہ ” رسی ڈالنا “ والے مفہوم کو دو مفعول کے ساتھ یوں ظاہر کرتے ہیں ” اَشْربَ فلانًا الحبْلَ “ (اس نے فلاں کی گردن میں رسی ڈالی) خیال رہے اس استعمال میں ” گردن “ کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی) جیسے اوپر کی مثال ” اَشرَبَ الخیلَ “ میں رسی یا گردن کا ذکر ضروری نہیں بلکہ خود سمجھا جاتا ہے۔ ۔ کبھی اس فعل کا استعمال بطور مجہول ہوتا ہے مثلاً مندرجہ بالا کپڑے کے رنگنے والے مضمون کو یوں بھی بیان کرسکتے ہیں۔ ” اَشْرِبَ الثوبُ حُمْرَۃً “ (کپڑے کو سرخی پلائی گئی یعنی اس میں سرخ رنگ نمایاں کردیا گیا) یا مثلاً کہتے ہیں ” یُشْرِبُ الثوبُ الصِیغَ “ (کپڑے کو رنگ خوب پلایا یا جذب کرایا جاتا ہے یعنی رنگ سے سیراب کیا جاتا ہے ) اور اسی سے کہتے ہیں ” اُشْرِبَ فلانٌ حُبَّ فلانَۃٍ “ (فلاں مرد کو فلاں عورت کی محبت پلا دی گئی یعنی اس سے سیراب کردیا گیا یا سرشار کردیا گیا) ؤ زیر مطالعہ عبارت میں اس کلمہ ” اُشْرِبُوا “ کے معنی اوپر بیان کردہ معانی میں سے (خوب پلانا) (رسی سے باندھ دینا) اور کسی حد تک (رنگ گہرا کردیان) والے - مراد لیے جاسکتے ہیں۔ استعمال اس کا یہاں 5 والا یعنی بطور مجہول ہے ہم اس پر ابھی مزید بات کریں گے پہلے زیر مطالعہ عبارت کے باقی کلمات کے لغوی پہلو اور معنی کی بات کرلیں۔ ؤ ” فی قلوبھم “ (ان کے دلوں میں) -- بعینہٖ یہی ترکیب (جازی) پہلی دفعہ البقرہ :10 [ 2:8:1 (6)] میں سامنے آئی تھی۔ ” العِجْل “ (بچھڑا) مزید چاہیں تو دیکھ لیجئے البقرہ :51 [ 2:33:1 (6)] ” بکفرھم “ (بسبب ان کے کفر (انکار) کے) ” باء سببیہ “ کے لیے دیکھیے البقرہ :45 [ 2:30:1 (1)] ” کُفْر “ جو مصدر ہے اور اردو میں مستعمل ہے اس کے فعل مجرد کے استعمال وغیرہ پر چاہیں تو البقرہ :6 [ 2:5:1 (1)] دیکھ لیجئے۔ ؤ یوں اس زیر مطالعہ جملہ (وأشربُوا فی قلوبھم العجل بکفرھم) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” اور وہ خوب پلائے گئے (یا ان کو پلا دیا گیا) اپنے دلوں میں بچھڑا بسبب ان کے کفر کے “ یا ” اور وہ باندھ دیے گئے اپنے دلوں میں بچھڑا بوجہ اپنے کفر کے۔ “ چونکہ بچھڑا تو پلانے کی چیز ہے اور نہ اس کے گلے میں رسی ڈال کر دل میں اس کا کھونٹا گاڑا جاسکتا ہے اس لیے عربی اور اردو دونوں کے محاورے میں یہاں ” بچھڑا “ نہیں بلکہ بچھڑے کی محبت (حُبُّ العجل) مراد ہے۔ یعنی اس عبارت کی سادہ نثر (مقدر) کچھ یوں بنتی ہے۔ ” واُشربوا حُبُّ العجل فی قلوبھم بکفرھم “ اسی لیے بعض حضرات نے اس کا ترجمہ ہی کیا ہے۔ ” پلائی گئی ان کے دلوں میں محبت (اسی) بچھڑے کی بسبب ان کے کفر کے “ بیشتر مترجمین نے یہاں اردو محاورے کی خاطر فعل مجہول کا ترجمہ فعل لازم کی طرح کرلیا ہے۔ یعنی ” بوجہ کفر وہ بچھڑا ان کے دلوں (قلوب) میں پیوست ہوگیا تھا “ یا مثلاً ” ان کے دلوں میں بچھڑا رچ رہا تھا “ یا ” رچ گیا تھا بچھڑا ان کے دلوں میں “ یا ” اور دل میں تو ان کے بچھڑے کی الفت رچ گئی تھی “۔ ان تراجم میں ” پلائے گئے “ کی بجائے اردو کا ” رچ جانا “ ایسا لفظ ہے کہ اس کو بھی الفت یا محبت کے ذکر کے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال یہ سب تراجم ” خوب پلا دیا جانا “ کے مفہوم میں ہیں، البتہ ” پیوست ہونا “ والا ترجمہ ” مضبوطی سیب اندھ دینا “ والا مفہوم رکھتا ہے جو کہ المفردات میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ؤ اور عبارت میں لفظ ” حُبّ “ کا نہ لانا (اگرچہ مراد وہی ہے) ایک ادبی خوبی ہے۔ عربی زبان میں جب انتہائی محبت یا انتہائی بغض کا اظہار عبارت میں کرنا چاہیں تو لفظ ” شراب “ (پینے کی چیز) یا شرب (پینا) کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ ” خوب پلانا۔ سیراب کردینا۔ بھر دینا “ وغیرہ کی قسم کے الفاظ میں مبالغۃ کا مفہوم ہوتا ہے۔ اگر یہاں لفظ ” حبُّ العجل “ لایا جاتا (اگرچہ مراد یہی ہے) تو مبالغہ والی بات ہی ختم ہوجاتی۔ اب ” بچھڑا ہی پلا دینا “ یا ” بچھڑا دلوں میں باندھ دیا جانا۔ “ کے الفاظ سے مفہوم یہ ہوگیا ہے کہ بچھڑا ان کی رگ رگ میں رچ بس گیا تھا (اس میں بچھڑے کی محبت، اس کی تعظیم، اور اس کے ادب و احترام کے شدید جذبات کا مفہوم خود بخود آجاتا ہے) یہ کون سا بچھڑا یا گوسالہ تھا ؟ اس کا قصہ کسی اچھی تفسیر میں پڑھ لیجئے۔ قرآن کریم میں یہ واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ سورة ” الاعراف “ میں اور اس سے بھی زیادہ سورة طٰہٰ میں بیان ہوا ہے۔ ؤ [ قُلْ بئْسَمَا یَأمُرُکُمْ بِہٖ اِیْمَانُکُمْ ] تمام کلمات کے الگ الگ معنی (ترجمہ) اور مزید وضاحت کے طالب کے لیے گزشتہ حوالہ جات ذیل میں دیے جاتے ہیں۔ ۔ ” قُلْ “ (تو کہ دے : آپ فرمادیجئے) کے مادہ (ق و ل) سے فعل مجرد ” قال یقول “ = کہنا) پر [ 2:7:1 (5)] میں اور خود اسی لفظ (قُلْ ) کے وزن، ساخت اور تعلیل وغیرہ کے لیے دیکھئے البقرہ :80 [ 2:50:1 (4)] سے پہلے۔ ۔ ” بِئْسَمَا “ (کتنا برا ہے وہ جو کہ) پر مفصل بحث ابھی اوپر البقرہ :90 [ 2:55:1 (1)] میں گزری ہے۔ ۔ ” یَاْمُرُکُمْ “ (تم کو حکم دیتا ہے) ” کُمْ “ (تم کو) تو ضمیر منصوب ہے اور ” یامُرُ “ کے مادہ (أ م ر) سے فعل مجرد ” امَر یامُر “ (حکم دینا) کے باب اور معنی و طریق استعمال پر البقرہ :27 [ 2:19:1 (16)] میں بات ہوچکی ہے۔ ۔ ” بہ “ (اس کے ساتھ : اس کا) ” با “ (بِ ) وہ صلہ ہے جو فعل ” اَمَرَ “ کے مفعول بہ (جس بات کا حکم دیا جائے) پر لگتا ہے۔ اوپر کے حوالہ میں اس فعل کے طریق استعمال کو دیکھ لیجئے۔ ۔ ” اِیْمَانُکُمْ “ (تمہارا ایمان) لفظ ” ایمان “ جو اردو میں رائج ہے باب افعال (مادہ امن سے) کا مصدر ہے اس باب کے معنی اور طریق استعمال پر البقرہ :3 [ 2:2:1 (1)] میں مفصل بات ہوچکی ہے۔ ؤ یوں اس پوری عبارت (قل بئسما یأمرکم بہ ایمانکم) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” کہہ دے کتنا برا ہے وہ جو کہ (کتنی بری ہے وہ چیز جو) حکم دیتا ہے تم کو اس کا (یا جس کا ) تمہارا ایمان “ جس کی سلیس صورت ہے۔ “ (کیسی یا کتنی) بری ہے وہ (بات) جس کا حکم تمہارا ایمان تمہیں دے رہا ہے۔ “ یا ” کیا برا حکم دیتا ہے تم کو تمہارا ایمان “ بعض حضرات نے غالباً مفہوم کی بنا پر (کہ ایمان کوئی شخص تو نہیں) ” یامرکم “ کا ترجمہ ” سکھاتا ہے “ کیا ہے، جو لفظ سے بہرحال ہٹ کر ہے، گو مفہوم درست ہے۔ اسی طرح ” بئس “ میں جو زور ہے (کتنا ہی برا کا) بعض حضرات نے تو اس کو ” بہت برا، کیا برا “ اور ” کیسی بری “ سے ترجمہ کیا ہے جب کہ بعض نے صرف ” برا “ یا ” بری “ سے ترجمہ کیا جس میں ” بئس “ (فعل ذم) والا زور نہیں ہے۔ ” ما “ موصولہ بمعنی جو کہ (بئسما والا) کا ترجمہ بعض نے ” بات “ (بری یا ” باتیں “ (بری باتیں) اور بعض نے ” یہ افعال “ کے وضاحتی الفاظ کے ساتھ کیا ہے اسی طرح بعض حضرات نے ” یامُرُ “ کا ترجمہ ” بتاتا ہے “ ، ” کی طرف لے جاتا ہے۔ “، ” تعلیم کرتا ہے “ ، ” تعلیم کررہا ہے۔ “ کے ساتھ کیا ہے جو ظاہر ہے لفظ سے بہت ہٹ کر ہے۔ اسے صرف محاورے اور مفہوم کے اعتبار سے ہی درست کہا جاسکتا ہے۔ ؤ [ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ ] (اگر ہو تم ایمان والے) بعینہٖ یہی جملہ ابھی اوپر البقرہ :91 [ 2:56:1] میں مع تراجم گزر چکا ہے۔ اس پر کچھ مزید بات آگے ’ الاعراب ‘ میں آئے گی۔ 2:57:2 الاعراب نحوی اعتبار سے ان آیات کو دس چھوٹے جملوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن میں سے بعض کو حال سمجھ کر اپنے سے سابقہ جملے کا جزء بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ الگ الگ جملوں کی اعرابی تفصیل یوں ہے۔ اس میں کسی بعد والے جملے کا اپنے سے سابقہ جملے سے تعلق ہونے یا نہ ہونے کی بات بھی ساتھ ہی کردی جائے گی۔ ۔ ” ولقد جاء کم موسیٰ بالبینات “ [ وَ ] کو یہاں مستانفہ سمجھنا ہی موزوں ہے [ لَقد ] لام مفتوحہ (ل) برائے تاکید ہے اور ” قد “ حرف تحقیق ہے۔ [ جاء کُم ] ” جائ “ فعل ماضی معروف صیغہ واحد غائب ہے اور ” کم “ ضمیر منصوب مفعول بہ مقدم ہے (ضمر مفعول ہو تو فاعل سے پہلے آتی ہے) [ موسیٰ ] فاعل (فعل ” جائ “ کا) لہٰذا مرفوع ہے مگر بوجہ اسم مقصور ہونے کے علامت رفع ظاہر نہیں ہے [ بالبینات ] حرف الجر (بِ ) اور مجرور بالجبر (البینات) مل کر متعلق فعل (جائ) ہیں۔ یا ” بِ “ کو فعل ” جائ “ کا صلہ برائے تعدیہ (متعدی بنانا) سمجھ لیں تو پھر ” بالبینات “ کو مفعول (ثانی) سمجھ کر محلاً منصوب بھی کہہ سکتے ہیں۔ (یعنی لائے بینات) ۔ ” ثم اتخذتم العجل من بعدہ “ [ ثم ] حرف عطف ہے جس میں ترتیب مع تراخی (ایک کام کے بعد دوسرے کام کا کچھ عرصہ کے بعد واقع ہونے) کا مفہوم ہے۔ [ اتخذتم ] فعل ماضی معروف مع ضمیر الفاعلین ” انتم “ ہے [ العجل ] اس فعل کا مفعول اول ہے، دوسرا مفعول ” اِلٰھًا “ محذوف ہے (فعل ” اتخذ “ کے عموماً دو مفعول ہوتے ہیں) ” یعنی تم نے بچھڑے کو بنا لیا معبود “ [ من بعد ] ” مِنْ “ جارہ اور ” بعد “ ظرف مجرور بھی ہے اور آگے مضاف بھی ہے اور ” ہ “ ضمیر مجرور اس ظرف کا مضاف الیہ ہے۔ اور یہ پورا مرکب جاری (من بعدہ) متعلق فعل ” اتخذتم “ (یعنی یہ کام کب کیا ؟ کا جواب ہے۔ ۔ ” وانتم ظالمون “ [ وَ ] یہاں حالیہ ہے [ انتم ] ضمیر مرفوع منفصل مبتدأ ہے اور [ ظالمون ] خبر (لہٰذا) مرفوع ہے۔ یہ جملہ اسمیہ (انتم ظالمون) یہاں واو الحال کے ذریعے جملہ حالیہ (حال) ہوکر اپنے سے سابقہ جملے (نمبر 2 مندرجہ بالا) کا ہی ایک حصہ شمار ہوگا (یعنی تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا حالانکہ تم ظلم کررہے تھے) ۔ ” واذ اخذنا میثاقکم “ [ وَ ] مستانفہ ہے [ اِذْ ] ظرفیہ ہے جس سے پہلے ایک فعل (مثلاً اذکروا) محذوف سمجھا جاتا ہے [ اخذنا ] فعل ماضی معروف مع ضمیر تعظیم ” نحن “ ہے جو یہاں بطور فاعل اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ [ میثاقکم ] ” میثاق “ یہاں ” اخذنا “ کا مفعول بہ ہے اس لیے منصوب ہے، مگر آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہے، اس لیے علامت نصب اب ” ق “ کی صرف فتحہ (-َ ) رہ گئی ہے۔ آخری ضمیر مجرور (کم) اس (میثاق) کا مضاف الیہ ہے اور دراصل تو یہ پورا مرکب اضافی (میثاقکم) ہی مفعول بہ ہے۔ ۔ ” ورفعنا فوقکم الطور “ [ وَ ] یہ واو یہاں عاطفہ بھی ہوسکتی ہے جس سے بعد والے فعل ” رَفَعْنَا “ کا عطف سابقہ فعل ” اخذنا “ پر ہوسکتا ہے، یعنی ” ہم نے یہ کام بھی کیا اور وہ کام بھی کیا “ اور یہ ” واو “ حالیہ بھی ہوسکتی ہے۔ [ رَفَعْنَا ] فعل ماضی معروف ہے جس میں فاعل ضمیر ” نحن “ مستتر ہے۔ [ فَوقکم ] ” فوق “ ظرف مکان مضاف ہے اور بوجہ ظرف ہونے کے منصوب بھی ہے۔ ” کم “ ضمیر مجرور متصل مضاف الیہ ہے۔ [ الطور ] فعل ” رفعنا “ کا مفعول بہ (لہٰذا) منصوب ہے۔ فقرے کی سادہ نثریوں بنتی ہے ” ورفعنا الطور فوقکم “ اس تقدیم (پہلے لانا) کی بنا پر یہاں ” فوقکم “ میں ” تمہارے ہی اوپر “ کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے اور اگر ابتدائی ” وَ “ کو حالیہ سمجھیں تو یہ جملہ (ورفعنا فوقکم الطور) سابقہ جملے (4) کے فعل کی ضمیر فاعل کا حال ہے۔ چونکہ فعل ماضی حال نہیں ہوسکتا اس لیے بعض نحوی حضرات ” رفعنا “ سے پہلے ایک ” قد “ مقدرہ فرض کرلیتے ہیں یعنی ” وقد رفعنا “ (یعنی ” ہم نے تم سے عہد لیا اس حالت میں کہ ہم نے ” طور “ کو تم پر بلند کردیا تھا “ ) یہاں تک ایک بات مکمل ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے۔ ۔ ” خذوا ما اٰتیناکم بقوۃٍ واسمعوا “ [ خذوا ] فعل امر صیغۃ مع مذکر حاضر ہے۔ اور اس پورے جملے سے پہلے ایک فعل (مثلاً قُلْنَا) محذوف ہے، یعنی یہ جملہ اس فعل کا مقول ہے۔ [ مَا ] اسم موصول فعل ” خذوا “ کا مفعول بہ ہے۔ لہٰذا منصوب ہے۔ یا یوں کہیے کہ یاں سے مفعول کا بیان شروع ہوتا ہے کیونکہ دراصل تو صلہ موصول مل کر ہی مفعول بنے گا۔ [ اٰتیناکم ] ” اَتینا “ فعل ماضی معروف مع ضمیر التعظیم ” نحن “ ہے اور ” کم “ ضمیر منصوب متصل اس فعل کا مفعول بہ ہے اور یہ جملہ فعلیہ (آتیناکم) اسم موصول ” مَا “ کا صلہ ہے۔ [ بقوۃ ] جارّ (بِ ) اور مجرور (قوّۃٍ ) مل کر متعلق فعل ” خذوا “ ہیں۔ یعنی ” پکڑو مضبوطی کے ساتھ “ یہ اپنے سے قریبی فعل ” آتینا “ سے متعلق نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ اس طرح تو ترجمہ ہوجائے گا ” جو ہم نے قوت کے ساتھ تم کو دیا ہے “ [ واسمعوا ] کی ” و “ عاطفہ ہے جس سے اگلے فعل (اسمعوا) کا عطف ” خذوا “ پر ہوا ہے اور ” اِسْمَعُوْا “ فعل امر جمع مذکر حاضر ہے۔ یہاں بھی ایک مکمل جملہ ختم ہوتا ہے اس لیے آخر پر وقف مطلق کی علامت (ط) ڈالی جاتی ہے۔ ۔ ” قالوا سمعنا وعصینا “ یہ تینوں کلمات ماضی معروف کے صیغے ہیں [ قالوا ] جمع مذکر غائب کا صیغۃ ہے اور [ سمعنا ] جمع متکلم کا صیغہ ہے [ و ] عاطفہ اور [ عَصَیْنَا ] بھی ماضی جمع متکلم کا صیغہ ہے۔ ” سمعنا وعصینا “ فعل ” قالوا “ کا مفعول ہونے کے اعتبار سے محلاً منصوب ہیں۔ ۔ ” وَاُشْرِبُوا فی قلوبھم العجلَ بکفرھم “ [ وَ ] مستانفہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس (اگلے) جملے میں ان لوگوں کی ایک ” اور “ کیفیت بیان کی گئی ہے اور اس ” وَ “ کو حولیہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے، یعنی انہوں نے یہ ” سمعنا “ اور ” عصینا “ اس حالت میں کہا (جب وہ بچھڑے کی محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے) [ اُشربوا ] فعل ماضی مجہول صیغہ جمع مذکر غائب ہے جس میں پہلا (مفعول) ” نائب فاعل “ ضمیر ” ھم “ مستتر ہے۔ (فعل ” اَشرَب “ کے دو مفعول آتے ہیں ” جس کو پلایا “ اور ” جو پلایا “ ) [ فی ] حروف الجر ہے اور [ قلوبھم ] مضاف (” قلوب “ جو مجرور بھی ہے اور خفیف بھی) اور مضاف الیہ (ھم) مل کر مجرور بالجبر ہیں اور یہ مرکب جاری (فی قلوبھم) متعلق فعل ” اشربوا “ ہے۔ [ العجل ] فعل ” اُشرِوا “ کا مفعول ثانی (لہٰذا) منصوب ہے، تاہم چونکہ ” العجل “ پلائے جانے کی چیز نہیں لہٰذا یہاں ایک مضاف محذوف ماننا پڑتا ہے یعنی مراد دراصل ” حبَّ العجل “ ہے جو دلوں میں سرایت کرگئی تھی یا چپک کر رہ گئی تھی۔ (اس مقدر ترکیب میں ” نصب “ لفظ ” حُب “ کے لیے ہوگی کیونکہ العجل تو پھر مضاف الیہ ہوجائے گا) [ بکفرھم ] میں ” بائ (ب) “ تو حرف الجر ہے اور ” کفرھم “ مرکب اضافی (کفر مضاف+ ھم ضمیر مضاف الیہ) مجرور بالجبر ہے، علامت جر لفظ ” کفر “ کی ” ر “ کی کسرہ (-ِ ) ہے۔ یہ پورا مرکب جاری (بکفرھم) بھی متعلق فعل (اشربوا) ہے جس میں اس فعل کے سبب (بذریعہ بار سببیہ) بیان ہوا ہے۔ r قل بئسما یامرکم بہ ایمانکم [ قل ] فعل امر صیغۃ واحد مذکر حاضر ہے [ بئسما ] فعل ” دم “ بئس اور ” ما “ موصولہ (جو اس فعل کی تمیز بھی ہوسکتی ہے اور فاعل بھی) کا مرکب ہے۔ [ یامرکم ] فعل (یامر) اور مفعول (ضمیر منصوب ” کم “ ) کا مجموعہ ہے۔ [ بہ ] جار (ب) مجرور (ہ) مل کر متعلق فعل ہیں یا (ب) صلہ فعل ہے جو فعل ” امر “ کے مامور بہ پر آتا ہے اور ضمیر مجرور (ہ) اسم موصول (ما) کے لیے عاید ہے اور یوں ” بہ “ محلاً منصوب ہے۔ اور یہ جملہ ” یامرکم بہ “ اسم موصول ” ما “ کا صلہ ہے اور یہ سب (صلہ موصول) مل کر ہی ” تمیز یا فاعل (فعل ” بئس “ کا) بنتے ہیں [ ایمانکم ] یہ مرکب اضافی (” ایمان “ مضاف اور ” کم “ مضاف الیہ مل کر) فعل ” یَامر “ کا فاعل ہے، اسی لیے لفظ ” ایمان “ مرفوع ہے۔ علامت رفع ” ن “ کا ضمہ (-ُ ) ہے کیونکہ کلمہ ایمان یہاں آگے مضاف ہونے کے باعث خفیف بھی ہوگیا ہے۔ یہ مرکب بھی ” ما “ کے صلہ والے جملہ فعلیہ کا ہی ایک حصہ ہے۔ ان کنتم مؤمنین [ ان ] حرف شرط ہے [ کنتم ] فعل ناقص صیغۃ ماضی جمع مذکر حاض رہے جس میں اس کا اسم ” انتم “ شامل ہے۔ [ مومنین ] ” کنتم “ کی خبر (لہٰذا) منصوب ہے، علامت نصب آخری نون (اعرابی) سے پہلے والی یاء ماقبل مکسور (-ِ ی) ہے۔ اس طرح یہ جملہ اسمیہ شرط ہے مگر اس میں جوابِ شرط محذوف ہے (مثلاً ” فلِمَ فعلتم ذٰلک “ پھر تم نے ایسا کیوں کیا ؟ ) 2:57:3 الرسم بالحاظ رسم قرآنی (عثمانی) زیر مطالعہ قطعہ آیات میں چھ کلمات قابل وضاحت ہیں، ان میں سے چار کلمات کا رسم متفق علیہ ہے اور دو کلمات کا مختلف فیہ ہے۔ فرق سمجھانے کے لیے ہم پہلے یہاں ان کلمات کو عام رسم املائی کے مطابق لکھتے ہیں جو یہ ہیں : ” بالبینات، ظالمون، میثاقکم، اٰتیناکم، بئسما اور ایمانکم “ تفصیل یوں ہے : ۔ ” بالبینات “ قرآن کریم میں یہاں اور ہر جگہ ” بحذف الالف بعد النون “ یعنی بصورت ” بالبینت “ لکھا جاتا ہے، بلکہ اس بارے میں رسم عثمانی کا عام قاعدہ یہ ہے کہ تمام ایسے جمع مؤنث سالم جن میں صرف ایک الف آتا ہے (جیسے ” بینات “ ہے) یہ سب بحذف الف لکھے جاتے ہیں۔ چند کلمات کا استثناء بیان ہوا ہے جن کا ذکر اپنے اپنے موقع پر ہوگا۔ ۔ ” ظالمون “ یہ لفظ یہاں اور ہر جگہ ” بحذف الالف بعد الظائ “ یعنی بصورت ” ظلمون “ لکھا جاتا ہے۔ بلکہ اس بارے میں بھی عام قاعدہ یہ ہے کہ تمام مذکر جمع سالم (چند مستثنیات کے سوا جن کا ذکر حسب موقع ہوگا) عموماً بحذف الف ہی لکھتے جاتے ہیں۔ ۔ ” میثاقکم “ کے لفظ ” میثاق “ کا رسم مختلف فیہ ہے۔ ابودائود نے اس میں الف (بعد الثائ) کا حذف بیان کیا ہے اس لیے بیشتر افریقی اور عرب ممالک کے مصاحف میں اسے بحذف الف یعنی بصورت ” میثاقکم “ لکھا جاتا ہے، جبکہ الدانی نے اس میں خاموشی اختیار کی ہے جو اثبات الف کو مستلزم ہے، چناچہ لیبیا میں اور برصغیر نیز ایران اور ترکی کے مصاحف میں اسے بالثبات الف بصورت ” میثاقکم “ لکھا جاتا ہے۔ نیز دیکھئے البقرہ :27 [ 2:19:3] میں کلمہ ” میثاق “۔ ۔ ” آتیناکم “ اس لفظ کے رسم میں دو باتیں قابل ملاحظہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کے شروع کا الف ماقبل ہمزئہ مفتوحہ (ئَ ا) صرف ایک ” الف “ (ا) کی شکل میں لکھا جاتا ہے (دیکھئے البقرہ :4 [ 2:3:2] میں کلمہ ” الاخرۃ “ کی بحث رسم) اور اس قسم کے کلمات کی یہ املاء رسم عثمانی اور رسم املائی میں مشرک ہے۔ دوسری بات قابل ملاحظہ یہ ہے کہ یہاں اور ہر جگہ یہ کلمہ بحذف الالف بعد النون یعنی بصورت ” آتینکم “ لکھا جاتا ہے اور اس بارے میں بھی قاعدہ یہ ہے کہ جمع متکلم فعل ماضی کے تمام ایسے صیغے جن کے ساتھ بطور مفعول کوئی ضمیر (منصوب متصل) آرہی ہو تو ایسے تمام صیغوں میں ” ن “ کے بعد والا الف لکھنے میں حذف کردیا جاتا ہے، اگرچہ پڑھا ضرور جاتا ہے۔ ۔ ” بئسما “ یہاں بھی موصول (یعنی ” بئس “ اور ” ما “ کو ملا کر) لکھا جاتا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے دیکھئے البقرہ :90 [ 2:55:3] میں اسی کلمہ کی بحث رسم۔ ۔ ” ایمانکم “ یہ کلمہ (یعنی اس مرکب کا پہلا جزئ ” ایمان “ بھی بلحاظ رسم ” میثاقکم “ کی طرح مختلف فیہ ہے۔ الدانی نے اس کا حذف الف بیان نہیں کیا۔ اس لیے لیبیا اور مشرقی ایشیائی ممالک (برصغیر، ایران، ترکی وغیرہ) کے مصاحف میں یہ باثبات الالف بعد المیم یعنی بصورت ” ایمانکم “ لکھا جاتا ہے، جب کہ ابودائود کی طرف منسوب تصریح کی بناء پر عرب اور بیشتر افریقی ممالک میں اسے بحذف الالف بعد المیم یعنی بصورت ” ایمنکم “ لکھا جاتا ہے (یعنی ” ایمان “ کی بجائے ایمٰن) 2:57:4 الضبط زیر مطالعہ قطعہ آیات کے کلمات کے ضبط کا تنوع زیادہ تر ساکن حرف علت (و یا ی) ہائے کنایہ، واو الجمع کے بعد والے الف الوقایہ اور الفات محذوفہ کے ضبط سے تعلق رکھتا ہے۔ جسے مندرجہ ذیل نمونوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
Top