Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 99
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ١ۚ وَ مَا یَكْفُرُ بِهَاۤ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَنْزَلْنَا : ہم نے اتاری اِلَيْکَ : آپ کی طرف آيَاتٍ : نشانیاں بَيِّنَاتٍ : واضح وَمَا : اور نہیں يَكْفُرُ : انکار کرتے بِهَا : اس کا اِلَّا : مگر الْفَاسِقُوْنَ : نافرمان
ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کر نے والی ہیں اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں، جو فاسق ہیں
[ وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ : اور بیشک ہم نے اتارا ہے ] [ اِلَيْكَ : آپ کی طرف ] [ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ ۚ : کھلی نشانیوں کو ] [ وَمَا يَكْفُرُ : ار انکار نہیں کرتے ] [ بِهَآ : اس کا ] [ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ : مگر نافرمانی کرنے والے ] اللّغۃ اس قطعہ میں بھی بالکل نئے (بلحاظِ مادہ) صرف دو ہی لفظ آئے ہیں لہٰذا اسے ہم چھوٹے جملوں کی صورت میں لکھ کر ہر ایک کے مفردات کا صرف ترجمہ (مع گزشتہ حوالہ برائے طالب مزید) لکھتے جائیں گے۔ نئے کلمات کی وضاحت اپنے مقام پر آجائے گی۔ نمبر حوالہ صرف اسی جملے کا دیا جائے گا جس میں کوئی نیا لفظ آئے گا۔ وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ A ” وَ لَقَدْ “ (اور ضرور بالتحقیق) ۔ ” لقد “ کے لام مفتوحہ پر البقرہ : 64 [ 2: 41: 1 (6)] میں اور ” قد “ (حرف تحقیق) کے معنی و استعمال پر البقرہ : 60 [ 2: 38: 1 (8)] میں بحث ہوچکی ہے۔ B ” اَنْزَلْنَا “ (ہم نے اتارا - نازل کیا) جو ” ن ز ل “ سے باب افعال کا صیغہ ماضی ہے ‘ اس باب سے اسی فعل کے معنی و طریق استعمال پر البقرہ : 4 [ 2: 3: 1 (2)] میں کلمہ ” اُنْزِلَ “ کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ C ” اِلَیْکَ “ (تیری طرف) یہی مرکب جاری [ 2: 3: 1 (4)] میں گزرا ہے۔ D ” اٰیَات “ (آیات - احکام - نشانیاں) جو ” آیۃ “ کی جم ہے۔ اس کے مادہ (ا ی ی) اور فعل وغیرہ نیز اس کلمہ کے معانی پر البقرہ : 39 [ 2: 27: 1 (7)] میں کلمہ ” آیاتنا “ کے سلسلے میں مکمل بحث ہوچکی ہے۔ ۔ ” بَیِّنَات “ (کھلی کھلی - واضح - روشن) جو ” بیِّنۃ “ کی جمع ہے اس کے مادہ (ب ی ن) اور فعل مجرور وغیرہ پر البقرہ : 6 [ 2:43: 1 (6)] میں اور خود اسی لفظ (بینات) پر [ 2: 53: 1 (3)] میں بحث ہوچکی ہے۔ ۔ اس طرح اس حصہ آیت کا ترجمہ لفظی بنتا ہے ” اور البتہ تحقیق اتاریں ہم نے تیری طرف نشانیاں ظاہر۔ واضح “ …اردو محاورے کی رعایت سے اکثر مترجمین نے ” لقد “ کے ” لام “ اور ” قد “ کا الگ الگ ترجمہ نہیں کیا۔ اس کی بجائے مجموعی ترجمہ ” بالیقین “ یا ” بیشک “ کی صورت میں کردیا ہے۔ بلکہ اکثر نے اس کا ترجمہ ہی نظر انداز کردیا ہے۔ اس کی بجائے فعل ” انزلنا “ کا ترجمہ ماضی قریب کامل کے ساتھ ” اُتارے ہیں “ ، ” نازل کیے ہیں “ کی صورت میں کرلیا ہے (جس میں ایک طرح سے تاکید کا مفہوم آجاتا ہے) جب کہ بیشتر نے یہ بھی نہیں کیا بلکہ صرف ماضی مطلق کے ساتھ ترجمہ کردیا ہے۔ جو ایک لحاظ سے درست نہیں۔ ” آیات “ کا ترجمہ یہاں سیاق وسباق کی مناسبت سے ” آیتیں “ ہی کیا گیا ہے، اگرچہ بعض نے لفظی ترجمہ ” نشانیاں “ اور ” نشان “ کیا ہے۔ اسی طرح ” بَیِّنات “ کا ترجمہ ” ظاہر، واضح، روشن، کھلی، سلجھی ہوئی “ کیا ہے۔ سب کا مفہوم ایک ہے۔ بعض نے ” آیات بینات “ کا مجموعی ترجمہ ” دلائل واضح “ کیا ہے جو اصل سے کم مشکل نہیں ہے۔ وَمَا یَکْفُرُ بِہَآ اِلاَّ الْفٰسِقُوْنَ A ” وَمَا “ (اور نہیں) ” ما “ یہاں نافی ہے، دیکھیے [ 2:2:1 (5)] B ” یَکْفُرُ “ (انکار کرتا ہے ” کفر کرتے ہیں “ بوجہ آگے فاعل کے جمع آنے کے) اس فعل کے مادہ، معنی اور استعمال کے لیے دیکھیے البقرہ : 6 [ 2:5:1 (1)] C ” بِھَا “ (ان کا۔ اس کا ” ھا “ آیات کے لیے ہے اس لیے ترجمہ جمع میں ہوگا) ” بِ “ فعل ” کفر “ کے مفعول پر آنے والا صلہ ہے جس پر [ 2: 5: 1 (1)] میں بات ہوئی تھی۔ D ” اَلاَّ “ (سوائے۔ مگر) اس حرف استثناء پر البقرہ : 26 [ 2: 19: 1 (11)] میں مختصراً بات ہوئی تھی۔ مزید بات آگے ” الاعراب “ میں بھی ہوگی۔ ۔ ” الفَاسِقُون “ (نا فرمان لوگ) اس کے مادہ ”س ق “ اور فعل کے باب و معنی پر بلکہ خود اسی لفظ پر بات البقرہ : 26 [ 2: 19: 1 (11)] میں ہوئی تھی۔ ۔ یوں اس حصہ آیت کا لفظی ترجمہ بنتا ہے : ” اور نہیں کفر کرتے : انکار کرتے ان کا مگر نافرمان لوگ “ … ” مَا “ (نہیں) اور ” اِلاَّ “ (مگر) کے جمع ہونے کی وجہ سے اردو ترجمہ ” مگر صرف وہی جو، مگر وہی جو، صرف وہی لوگ جو “ کی صورت میں کیا جاسکتا ہے۔ ” وایکفر بھا “ کے ترجمہ میں ” منکر نہ ہوں گے ان سے “ اور ” نہ انکار کریں گے ان کا “ (بصیغہ مستقبل) کی بھی گنجائش موجود ہے۔ بعض نے ” الا “ اور ” ما “ کے جمع ہونے کے باعث اردو محاورے کے لیے فعل کا نفی میں ترجمہ کرنے کی بجائے فعل مثبت کے ساتھ (مگر صرف وہی لگا کر) ترجمہ کیا ہے یعنی ” ان سے انکار صرف وہی کرتے ہیں “ کی صورت میں۔ بعض نے ” وما یکفر “ کا ترجمہ ” کوئی انکار نہیں کرتا یا کوئی بھی انکار نہیں کرتا “ سے کیا ہے۔ گویا ” ما یکفر “ کی نفی کی وجہ سے ایک محذوف فاعل ” احد “ فرض کرلیا گیا ہے۔ یہ تمام عمدہ تراجم ہیں۔ ” الفاسقون “ کا ترجمہ بعض نے ” فاسق لوگ “ ہی رہنے دیا ہے، بعض نے ” عدول حکمی کے عادی “ اور ” بےحکم “ کیا ہے اور بعض نے ” بدکار “ اور ” بد کردار “ بھی کردیا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ اردو میں ” فسق و فجور “ عموماً اکٹھا استعمال ہوتے ہیں۔ ” بدکاری “ اصل میں ” فجور “ کا ترجمہ ہے ” فسق “ کا نہیں۔
Top