Mutaliya-e-Quran - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور زَبور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے
[ وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور بیشک ہم لکھ چکے ہیں ] [ فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں ] [ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد ] [ ان : کہ ] [ الْاَرْضَ : یہ زمین ] [ يَرِثُهَا : وارث ہوں گے اس کے ] [ عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ : میرے نیک بندے ] نوٹ۔ 1: آیت۔ 105 میں جس زمین کا ذکر ہے اس سے مراد جنت کی زمین ہے کیونکہ آیت۔ 104 ۔ میں بتایا ہے کہ ایک دن اللہ تعالیٰ اس آسمان یعنی موجودہ نظام شمسی کی بساط لپیٹ دے گا۔ یہی بات سورة ابراہیم کی آیت۔ 48 ۔ میں اس طرح آئی ہے کہ جس دن یہ زمین دوسری زمین سے اور آسمان دوسرے آسمان سے بدل دیئے جائیں گے۔ اس لئے آیت زیر مطالعہ میں دوبارہ تخلیق کی جانے والی زمین کا ذکر ہے اور اس کے وارث صالحین ہوں گے، یہ بات سورة زمر میں مزید واضح ہوجاتی ہے۔ جس میں آیت۔ 67 سے 73 تک قیامت قائم ہونے، حساب کتاب اور فیصلے ہونے، پھر دوزخیوں کے دوزخ میں اور جنتیوں کے جنت میں داخلے کا ذکر کرنے کے بعد آیت۔ 74 ۔ میں جنت میں داخل ہوتے وقت ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ وہ کہیں گے تمام شکرو سپاس اس اللہ کے لئے ہے جس نے سچ کیا ہم سے اپنا وعدہ اور ہم کو وارث بنایا اس زمین کا کہ ہم ٹھکانہ بنائیں اس جنت میں سے جہاں ہم چاہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں زبور کا حوالہ ہے۔ ویسے تو زبور میں یہ بات جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہی ہوں گے لیکن باب۔ 37 ۔ تو پورے کا پورا اسی حقیقت کی وضاحت کے لئے مخصوص ہے۔ اس کی نوعیت قطعہ بند نظم کی مانند ہے جس میں پہلے وعظ و نصیحت کی باتیں آتی ہیں پھر ٹیپ کے بند کی طرح یہ بات آتی ہے کہ زمین اور ملک کے وارث خدا کے نیک بندے ہوں گے۔ اور تکرار کے ساتھ ہی یہ بشارت بھی ہے کہ یہ وراثت دائمی اور ابدی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ یہ ابدی وراثت کی بشارت موجودہ زمین سے متعلق نہیں ہے۔ اس کی نہ تو کوئی چیز ابدی ہے اور نہ اس کی وراثت صالحین کے لئے مخصوص ہے۔ بلکہ یہ زمین اور اس کی ہر چیز فانی ہے اور اس میں نیک و بد دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک مدت تک کے لئے مہلت بخشی ہے۔ موجودہ زمین میں عارضی وراثت جس قاعدے پر تقسیم ہوتی ہے اسے سورة اعراف کی آیت۔ 128 ۔ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ” زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے۔ “ مشیت الٰہی کے تحت یہ وراثت مومن و کافر سب کو ملتی ہے مگر جزائے اعمال کے طور پر نہیں بلکہ امتحان کے طور پر۔ جیسا کہ اس سے اگلی آیت۔ 129 ۔ میں فرمایا ” اور وہ تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ “ اس وراثت میں ہمیشگی نہیں ہے۔ یہ محض ایک امتحان کا موقعہ ہے جو خدا کے ایک ضابطے کے مطابق مختلف قوموں کو باری باری دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس آخرت میں زمین کا دوامی بندوبست ہوگا اور اللہ تعالیٰ صرف مومنین صالحین کو اس کا وارث بنائے گا، امتحان کے طور پر نہیں بلکہ جزائے اعمال کے طور پر۔ یہ وراثت دائمی اور ابدی ہوگی۔ (تدبر قرآن اور تفہیم القرآن سے ماخوذ) ۔
Top