Mutaliya-e-Quran - Al-Anbiyaa : 67
اُفٍّ لَّكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اُفٍّ : تف لَّكُمْ : تم پر وَلِمَا : اور اس پر جسے تَعْبُدُوْنَ : پرستش کرتے ہو تم مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اَ : کیا فَلَا تَعْقِلُوْنَ : پھر تم نہیں سمجھتے
تف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبُودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟"
[ اُفٍّ : تُف ہے ] [ لَكُمْ : تم لوگوں پر ] [ وَلِمَا : اور ان چیزوں پر جن کی ] [ تَعْبُدُوْنَ : تم بندگی کرتے ہو ] [ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے علاوہ ] [ اَفَلَا تَعقلوْنَ : تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لو گے ] نوٹ۔ 1: آیت نمبر۔ 63 ۔ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے یہ کہا کہ یہ کام ان بتوں کے اس بڑے نے کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ یقین نہیں آتا تو ان سے پوچھ لو۔ یہ دوسرا فقرہ خود ظاہر کر رہا ہے کہ پہلے فقرہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بت شکنی کے فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے، اس سے ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا، بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات انھوں نے اس لئے کہی تھی کہ وہ لوگ جواب میں خود اس کا اقرار کریں کہ ان کے یہ معبود بالکل بےبس ہیں اور ان سے کسی فعل کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایسے مواقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلاف واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ نہ تو وہ خود جھوٹ کی نیت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ ہی اس کے مخاطب اسے جھوٹ سمجھتے ہیں۔ کہنے والا اسے حجت قائم کرنے کے لئے کہتا ہے اور سننے والا بھی اسے اسی معنی میں لیتا ہے۔ (تفہیم القرآن) ۔ آگے آیت۔ 64 ۔ 65 ۔ بتارہی ہیں کہ ان لوگوں نے حضرت ابراہیم سے یہ نہیں کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو بلکہ ان کی بات کو ان کی حجت ہی سمجھا اور سوچ میں پڑگئے۔ نوٹ۔ 2: نُکِسُوْا عَلٰی رُئُ وْسِھِمْ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جواب سنتے ہی پہلے تو انھوں نے اپنے دلوں میں سوچا کہ واقعی ظالم تو تم خود ہو، کیسے بےبس معبودوں کو خدا بنائے بیٹھے ہو جو اپنی زبان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان پر کیا بیتی۔ آخر یہ ہماری کیا مدد کریں گے جو خود اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے۔ لیکن پھر ان پر ضد اور جہالت سوار ہوگئی جس نے ان کی عقل کو اوندھا کردیا۔ دماغ سیدھا سوچتے سوچتے پھر الٹا سوچنے لگا۔ (تفہیم القرآن)
Top