Mutaliya-e-Quran - Al-Anbiyaa : 82
وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَ یَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ كُنَّا لَهُمْ حٰفِظِیْنَۙ
وَ : اور مِنَ : سے الشَّيٰطِيْنِ : شیطان (جمع) مَنْ يَّغُوْصُوْنَ : جو غوطہ لگاتے تھے لَهٗ : اس کے لیے وَيَعْمَلُوْنَ : اور کرتے تھے وہ عَمَلًا : کام دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کے سوا وَكُنَّا : اور ہم تھے لَهُمْ : ان کے لیے حٰفِظِيْنَ : سنبھالنے والے
اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دُوسرے کام کرتے تھے ان سب کے نگران ہم ہی تھے
[ وَمِنَ الشَّيٰطِيْنِ : اور (ہم نے تابع کئے) شیطانوں میں سے ] [ مَنْ : وہ جو ] [ يَّغُوْصُوْنَ : غوطے لگاتے تھے ] [ لَهٗ : ان (علیہ السلام) کے لئے ] [ وَيَعْمَلُوْنَ : اور وہ کرتے تھے ] [ عَمَلًا : کچھ (دوسرے) کام ] [ دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کے علاوہ ] [ وَكُنَا : اور ہم تھے ] [ لَهُمْ : ان کی ] [ حٰفِظِيْنَ : نگرانی کرنے والے ] [ غ و ص ] غَوْصًا پانی میں غوطہ لگانا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 82 ۔] [ غَوَّاصٌ فَعَّالٌ کے وزن پر مبالغہ ہے۔ بار بار غوطہ لگانے والا۔ وَالشَّیٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّائٍ وَّ غَوَّاصٍ (اور شیاطین کو بھی سب کے سب عمارت تعمیر کرنے والے اور غوطے لگانے والے) ۔ 38:37] نوٹ۔ 1: آیات۔ 78 سے 82 تک ہر آیت میں بات مکمل ہونے کے بعد ایک ایک جملے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ دراصل انسان کی دائمی رہنمائی کے لئے ہے۔ قیامت تک جو بھی دل کی آنکھیں کھول کر قرآن کا مطالعہ کرے گا اس کے لئے ان اضافی جملوں میں ایک ہدایت ہے اور جو بھی اس ہدایت پر عمل کرے گا وہ اپنے آپ کو شرک کی ایک قسم سے بچا لے جائے گا۔ اب یہ بات سمجھ لیں کہ ہدایت کیا ہے اور اس پر عمل نہ کرنا شرک کیسے ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ کسی نوع کا کوئی اختیار مل جائے، ذہن کسی بات کی تہہ تک پہنچ جائے، کسی مسئلہ کا حیرت انگیز حل سمجھ میں آجائے، ریسرچ کر کے کوئی ایجاد کرنے میں کامیاب ہوجائے، عوامل قدرت میں سے کسی پر کنٹرول حاصل ہوجائے جیسے بجلی پر قابو پانا، کوئی حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دے لے، غرضیکہ کوئی بھی کامیابی ہو یا کوئی بھی نعمت ملے، انسان کو چاہیے کہ اسے اپنی محنت، ذہانت اور صلاحیت کا نتیجہ نہ سمجھے، بلکہ ہمیشہ یہ یاد رکھے کہ یہ اللہ نے دی ہے تو اسے ملی ہے۔ ثانیاً یہ کہ اسے دے کر اللہ تعالیٰ اس سے بےتعلق نہیں ہوگیا بلکہ ہر چیز ، ہر آن اور ہر لمحہ اس کی نظر میں ہے اور اس کے کنٹرول میں ہے۔ ثالثاً یہ کہ جب بھی اس کامیابی یا نعمت کا خیال آئے یا اس سے استفادہ کرے تو اللہ کا شکر ادا کرے۔ اب ایمانداری سے سوچیں کہ ایسے موقعوں پر ہم کیا کرتے ہیں۔ زیادہ تر تو اسے ہم اپنا ہی کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ میں نے اتنی محنت کی، یہ عقلمندی دکھائی، اتنی مشکلات پر قابو پایا تب کہیں یہ کام ہوا ہے، اگر کبھی ہم اپنی ذات کے خول سے باہر نکلتے بھی ہیں تو اس کا کریڈٹ اپنے کسی کرم فرما کو دیتے ہیں۔ میرے وکیل نے تو کمال ہی کردیا۔ یہ میرے ڈاکٹر کی تشخیص کا کرشمہ ہے۔ بس میرا دوست کام آگیا۔ ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کی ذات عموماً ہمارے ذہن سے اوجھل ہوتی ہے۔ جو کام بنانے والی یا نعمت دینے والی اصل ہستی ہے اس جگہ ہم انسانی قابلیت اور صلاحیت کو لا کر بٹھا دیتے ہیں اور اس کے گن گاتے رہتے ہیں۔ یہ شرک کی ایک قسم ہے۔ اسی سے بچنے کے لئے مذکورہ آیات میں اصل حقیقت کی نشاندہی کرنے والے جملوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کی رہنمائی میں اگر ہم اس طرح سوچیں کہ مجھے یا فلاں کو اللہ نے توفیق دی اور مدد کی تو یہ کام ہوگیا، تو اس قسم کے شرک سے ہم خود کو بچا لے جائیں گے۔ سوچنے کے جس انداز کو اوپر شرک کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے وہ کسی کی ذہنی اختراع نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں اس کا متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ہم صرف تین آیات کا ترجمہ دے رہے ہیں جو ہم نے مولانا احمد رضا خانصاحب بریلوی کے ترجمہ سے نقل کیا ہے۔ (1) اور تمہارے پاس جو نعمت ہے سب اللہ کی طرف سے ہے۔ پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی طرف پناہ لے جاتے ہو۔ پھر جب وہ تم سے برائی ٹال دیتا ہے تو تم میں ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے (النحل۔ 53 ۔ 54) (2) پھر جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں اللہ کو پکارتے ہیں ایک اسی پر عقیدہ لا کر پھر جب وہ انھیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے۔ جبھی شرک کرنے لگتے ہیں (العنکبوت۔ 65) ۔ (3) اور جب لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی طرف رجوع لاتے ہوئے پھر جب وہ انھیں اپنے پاس سے رحمت کا مزہ دیتا ہے جبھی ان میں سے ایک گروہ اپنے رب کا شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔ (الروم۔ 33) سورة الکھف کی آیات۔ 32 تا 44 میں ہم مادہ پرستی کا شرک پڑھ چکے اور اس کی آیت۔ 110 میں ریاکاری کا شرک بھی پڑھ لیا۔ ان کے ساتھ قابلیت و صلاحیت کے شرک اور اس کی دیگر اقسام کو ذہن میں رکھ کر سوچیں اور اندازہ کریں کہ شرک سے مکمل اجتناب کتنا مشکل کام ہے۔ ہم کسی ایک قسم کے شرک سے خود کو بچا لیتے ہیں تو کسی دوسری قسم کے شرک میں جا کر پھنس جاتے ہیں۔ ہم میں بہت کم ایسے نصیبے والے ہوں گے جو ہر نوع کے شرک سے پاک ہوں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی نشاندہی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اور لوگوں کے اکثر اللہ پر ایمان نہیں لاتے مگر اس حال میں کہ وہ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔ “ (یوسف۔ 106) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید میں تقریباً پانچ چھ جگہ اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے وَمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ اب اندازہ کریں کہ یہ کتنا بڑا سر ٹیفکیٹ ہے، کتنا عظیم Testimonial ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیا ہے۔ ہم لوگ تو ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے لیکن ان کی گرد کے جتنا قریب ہو سکیں ہمارے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔ اس کے لئے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم خود کو شرک سے محفوظ نہ سمجھیں۔ پھر ہر نوع کے شرک سے بچنے کے لئے مسلسل شعوری کوشش کرتے رہیں اور ساتھ میں وہ دعا بھی مانگتے رہیں سورة الکھف کی آیت۔ 110 ۔ کے نوٹ۔ 2 میں دی ہوئی ہے۔
Top