Mutaliya-e-Quran - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ : پھر لْيَقْضُوْا : چاہیے کہ دور کریں تَفَثَهُمْ : اپنا میل کچیل وَلْيُوْفُوْا : اور پوری کریں نُذُوْرَهُمْ : اپنی نذریں وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور طواف کریں بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : قدیم گھر
پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں، اور اس قدیم گھر کا طواف کریں
[ ثُمَّ لْيَقْضُوْا : پھر چاہیے کہ وہ فارغ ہوں ] [ تَفَثَهُمْ : اپنے میل کچیل سے ] [ وَلْيُوْفُوْا : اور چاہیے کہ وہ پوری کریں ] [ نُذُوْرَهُمْ : اپنی منتیں ] [ وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور چاہیے کہ وہ طواف کریں ] [ بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : اس قدیم گھر کا ] تث [ تَفَثًا : (س) کسی چیز پر میل کچیل چڑھ جانا۔ تَفَثٌ اسم ذات بھی ہے۔ میل کچیل۔ زیر مطالعہ آیت۔ 29 ع ت ق [ عَتْقًا : (ص۔ ن) (1) آزاد ہونا۔ (2) پرانا ہونا۔ عَتِیْقٌ فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ آزاد۔ پرانا۔ زیر مطالعہ آیت۔ 29 ۔ نوٹ۔ 1: حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حج کے اعلان کا حکم ہوا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ (یہاں تو میدان ہے کوئی سننے والا نہیں) جہاں آبادی ہے وہاں میری آواز کیسے پہنچے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی ذمہ داری صرف اعلان کرنے کی ہے ’ اس کو ساری دنیا میں پہنچانے کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا۔ بعض روایات میں ہے کہ انھوں نے جبل ابی قبیس پر چڑھ کر یہ اعلان کیا۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ آواز اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا میں پہنچا دی۔ صرف اس وقت کے زندہ انسانوں تک ہی نہیں بلکہ جو انسان آئندہ تاقیامت پیدا ہونے والے تھے ان سب تک یہ آواز پہنچا دی گئی۔ جس جس نے اس آواز کے جواب میں لبیک اللھم لبیک کہا اسے حج نصیب ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ حج کے تلبیہ کی اصل بنیاد یہی نداء ابراہیمی کا جواب ہے (معارف القرآن)
Top