Mutaliya-e-Quran - Ash-Shu'araa : 37
یَاْتُوْكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِیْمٍ
يَاْتُوْكَ : لے آئیں تیرے پاس بِكُلِّ سَحَّارٍ : تمام بڑے جادوگر عَلِيْمٍ : ماہر
کہ ہر سیانے جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں"
يَاْتُوْكَ [ وہ لوگ لے آئیں گے تیرے پاس ] بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيْمٍ [ تمام جاننے والے بڑے جادوگر کو ] نوٹ۔ 1: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی گفتگو کو سمجھنے کے لئے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج کی طرح قدیم زمانے میں بھی ” معبود “ کا تصور صرف مذہبی معنوں تک محدود تھا۔ یعنی یہ کہ اسے پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا حق پہنچتا ہے اور اپنے فوق الفطری غلبہ و اقتدار کی وجہ سے اس کا یہ منصب بھی ہے کہ انسان اپنے معاملات میں اس سے دعائیں مانگے۔ لیکن کسی معبود کی یہ حیثیت کہ وہ قانونی اور سیاسی معنوں میں بھی بالادست ہے اور اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ معاملات دنیا میں وہ جو حکم چاہے دے اور انسانوں کا فرض ہے کہ اس کے امر و نہی کو قانون برتر مان کر اس کے آگے جھک جائیں، ، یہ بات زمین کے فرمانرواؤں نے نہ پہلے کبھی مان کردی تھی اور نہ آج اسے ماننے کے لئے تیار ہیں۔ دنیوی بادشاہوں اور انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی پیروی کرنے والوں کے تصادم کی اصل وجہ یہی رہی ہے۔ انھوں نے فرما نرواؤں سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت و بالدستی تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے اور فرمانروا اپنی حاکمیت مطلقہ کا دعوی کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے ہر اس شخص کو باغی اور مجرم قرار دیا جو ان کے سوا کسی اور کو قانون و سیاست کے میدان میں معبود مانے۔ اس تشریح سے فرعون کی اس گفتگو کا صحیح مفہوم سمجھ میں آسکتا ہے اگر معاملہ صرف پوجا پاٹ کا ہوتا تو فرعون کو اس سے کوئی بحث نہ تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صرف ایک اللہ رب العالمین کا اس کا مستحق سمجھتے ہیں۔ اگر اس معنی میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو توحید فی العبادت کی دعوت دی ہوتی تو اسے غضبناک ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ لیکن جس چیز نے اسے غضبناک کردیا وہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خود کو رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرکے ایک سیاسی حکم (بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کا) اس طرح پہنچایا کہ گویا فرعون ایک ماتحت حاکم ہے اور ایک برتر حاکم کا پیغامبر اس سے اطاعت کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ اس معنی میں فرعون اپنے اوپر کسی کی سیاسی برتری ماننے کے لئے تیار نہ تھا اور وہ یہ بھی گوارہ نہیں کرسکتا تھا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی فرد اس کے بجائے کسی اور کو حاکم برتر مانے۔ (تفہیم القرآن)
Top