Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 106
یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ١۫ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
يَّوْمَ : دن تَبْيَضُّ : سفید ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے وَّتَسْوَدُّ : اور سیاہ ہونگے وُجُوْهٌ : بعض چہرے فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : لوگ اسْوَدَّتْ : سیاہ ہوئے وُجُوْھُھُمْ : ان کے چہرے اَكَفَرْتُمْ : کیا تم نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : اپنے ایمان فَذُوْقُوا : تو چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا كُنْتُمْ : کیونکہ تم تھے تَكْفُرُوْنَ : کفر کرتے
جبکہ کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا، جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا کہ) نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا؟ اچھا تو اب اِس کفران نعمت کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو
[يَّوْمَ : جس دن ] [تَبْيَضُّ : سفید ہوں گے ] [ وُجوه : سفید ہوں گے ] [ٌ وَّتَسود : اور سیاہ ہوں گے ] [ وُجوهٌ ۚ: کچھ چہرے ] [ فَاَمَا الَّذِينَ : پس وہ لوگ جو ہیں ] [ اسْوَدَّتْ : سیاہ ہوئے ] [ وُجوھُھُمْ : جن کے چہرے ] [ ۣاَكَفَرْتم : کہاجائے گا ان سے کیا تم نے کفر کیا ] [ بَعْدَ اِيْمَانكُمْ : اپنے ایمان کے بعد ] [ فَذُوْقُوا : اچھا تو پھر تم مزہ چکھو ] [ الْعَذَابَ : عذاب کا ] [ بِمَا : بسبب اس کے جو ] [ كُنْتم تَكْفُرُوْنَ : تم لوگ کفر کیا کرتے تھے ] ذ و ق ذَاقَ (ن) ذَوْقًا : کسی چیز کا مزہ چکھنا۔ { فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ } (التغابن :5) ” تو ان لوگوں نے چکھا اپنے کام کا وبال۔ “ ذُقْ (فعل امر) : تو چکھ۔ آیت زیر مطالعہ۔ ذَائِقٌ (اسم الفاعل) : چکھنے والا۔ { کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِقف } (العنکبوت :57) ” ہر ایک جان موت کو چکھنے والی ہے۔ “ اَذَاقَ (افعال) اِذَاقَۃً : کسی کو مزہ چکھانا۔ { وَاِذَا اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً فَرِحُوْا بِھَاط } (الروم :36) ” اور جب کبھی ہم مزہ چکھاتے ہیں لوگوں کو کسی رحمت کا تو وہ لوگ خوش ہوتے ہیں اس سے۔ “ ترکیب :” وُجُوْہٌ“ غیر عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے افعال واحد مؤنث کے صیغوں میں آئے ہیں۔ ” اَکَفَرْتُمْ “ سے پہلے ” فَـیُـقَالُ لَھُمْ “ محذوف ہے۔ ” فِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ “ کا مبتدأ ” ھُمْ “ محذوف ہے اور اس کی خبر بھی محذوف ہے۔ ” مَا “ کا اسم ” اَللّٰہُ “ ہے اور اس کی خبر جملہ فعلیہ ” یُرِیْدُ ظُلْمًا “ ہے اور یہ پورا جملہ محلاً منصوب ہے ‘ جبکہ ” ظُلْمًا “ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ” لِلّٰہِ “ پر لام تملیک ہے۔ نوٹ : چہرے کا سفید یا سیاہ ہونا عربی محاورے ہیں۔ جیسے سرخ رُو ہونا اردو محاورہ ہے۔ اس میں چہرے کا سرخ ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کامیابی کے تأثرات کا چہرے پر نمایاں ہونا۔ اسی طرح عربی میں چہرے کے سفید یا سیاہ ہونے کا مطلب ہے کامیابی کے تأثرات اور ناکامی کے تأسف کا چہرے پر نمایاں ہونا۔
Top