Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 113
لَیْسُوْا سَوَآءً١ؕ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآئِمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَ هُمْ یَسْجُدُوْنَ
لَيْسُوْا : نہیں سَوَآءً : برابر مِنْ : سے (میں) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اُمَّةٌ : ایک جماعت قَآئِمَةٌ : قائم يَّتْلُوْنَ : وہ پڑھتے ہیں اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات اٰنَآءَ الَّيْلِ : اوقات۔ رات وَھُمْ : اور وہ يَسْجُدُوْنَ : سجدہ کرتے ہیں
مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اسکے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں
[لَـیْسُوْا : وہ لوگ نہیں ہیں ] [سَوَآئً : برابر ] [مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ : اہل کتاب میں سے ] [اُمَّـۃٌ : ایک گروہ ہے جو ] [قَـآئِمَۃٌ : قائم ہے (دین پر) ] [یَّـتْـلُوْنَ : وہ لوگ پڑھتے ہیں ] [اٰیٰتِ اللّٰہِ : اللہ کی آیتوں کو ] [اٰنَــآئَ الَّــیْلِ : رات کے وقتوں میں ] [وَہُمْ : اور وہ لوگ ] [یَسْجُدُوْنَ : سجدہ کرتے ہیں ] نوٹ : یہ مضمون البقرۃ :61 میں بھی گزر چکا ہے ‘ لیکن وہاں ذلت اور مسکنت تھوپنے میں ہمیشگی کا مفہوم نہیں تھا۔ آیت زیر مطالعہ میں { اَیْنَ مَا ثُقِفُوْا } کے الفاظ سے ہمیشگی کا مفہوم پیدا ہوا ہے ‘ اس لیے استثناء کا بھی یہیں ذکر کیا گیا ہے۔ معاہدہ بھی عربی لفظ ہے اور اس کے فعل کے مختلف صیغے قرآن مجید میں استعمال بھی ہوئے ہیں۔ لیکن آیت زیر مطالعہ میں لفظ معاہدہ کے بجائے استعارے کے طور پر ” حبل “ کا لفظ لانے سے اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہوگئی ہے۔ اب ان میں ایسی دعائیں بھی شامل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قبول کرلیتا ہے۔ جیسے ابلیس نے اس وقت دعا مانگی تھی جب اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرما رہا تھا کہ تو مجھے قیامت تک کے لیے مہلت دے دے (الاعراف :14) اور اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ دعا قبول کرلی۔ یہ بھی ” بِحَبْلٍ مِّنْ اللّٰہِ “ کی ایک صورت ہے۔ ان میں اللہ تعالیٰ کی ایسی سنتیں بھی شامل ہیں جو تبدیل نہیں ہوتیں (الاحزاب :62) ۔ جیسے یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو اپنے عمل کا بدلہ دنیا میں چاہتا ہے اسے اللہ دنیا میں جتنا مناسب سمجھتا ہے دے دیتا ہے (آل عمران :145) ۔ یہ بھی ” بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ “ کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ اسی طرح سے ” بِحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ “ کی بھی متعدد صورتیں ہیں۔ جیسے کسی اسلامی حکومت میں جزیہ دے کر امن اور سکون سے رہنا۔ کسی غیر مسلم قوم یا حکومت کا تعاون اور مدد حاصل کرلینا۔ آج کے دور میں اسرائیل کی حکومت اس کی بہت واضح مثال ہے جو امریکہ کی پشت پناہی پر قائم ہے۔ آیت زیر مطالعہ کا مضمون اور اس کا سیاق وسباق بہت واضح طور پر بتارہا ہے کہ یہاں مسکنت کا مطلب مال و دولت کی محتاجی نہیں ہے ‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ذلت و خواری سے بچنے کے لیے دوسروں کے محتاج رہیں گے۔ اس پس منظر میں ذلت و خواری اور دوسروں کی محتاجی میں ہمیشگی کا مفہوم سمجھ لیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنو اسرائیل (یہودیوں) کا اصل مقدر تو ذلت و خواری ہی ہے۔ البتہ کبھی کبھی وقتی طور پر اور جزوی طور پر سانس لینے کا کچھ وقفہ مل جاتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ وقفہ بھی یہ لوگ اپنے بل بوتے پر کبھی حاصل نہ کرسکے ‘ بلکہ اس کے لیے یہ لوگ ہمیشہ دوسروں کے محتاج رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ان کے عذاب استیصال تک جاری رہے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب کوئی قوم اپنے رسول کا انکار کردیتی ہے تو پھر اس پر عذاب استیصال نازل ہوتا ہے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ بنو اسرائیل اپنے آخری رسول حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا انکار کر کے اس ‘ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ ان کا یہ عذاب عیسیٰ ( علیہ السلام) ہی کے ذریعے آئے گا اور وہی اللہ کے حکم سے ان کو صفحۂ ہستی سے نابود کردیں گے۔
Top