Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
(اے پیغمبرؐ! مسلمانوں کے سامنے اُس موقع کا ذکر کرو) جب تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے اور (احد کے میدان میں) مسلمانوں کو جنگ کے لیے جا بجا مامور کر رہے تھے اللہ ساری باتیں سنتا ہے اور وہ نہایت باخبر ہے
[ وَاِذْ : اور جب ] [غَدَوْتَ : آپ ﷺ نکلے صبح کے وقت ] [مِنْ اَہْلِکَ : اپنے گھر والوں سے ] [تُبَـوِّیُٔ : (اور جب) آپ ﷺ ٹھکانہ دیتے تھے ] [الْمُؤْمِنِیْنَ : مؤمنوں کو ] [مَقَاعِدَ : بیٹھنے کی جگہوں میں ] [لِلْقِتَالِ : جنگ کے لیے ] [وَاللّٰہُ : اور اللہ ] [سَمِیْعٌ : سننے والا ہے ] [عَلِیْمٌ: جاننے والا ہے ] غ د و غَدَا (ن) غُدُوًّا : صبح سویرے نکلنا ‘ سویرے پہنچنا۔ (آیت زیر مطالعہ) اُغْدُ (فعل امر) : تو سویرے نکل۔ { اَنِ اغْدُوْا عَلٰی حَرْثِکُمْ } (القلم :22) ” کہ تم لوگ صبح سویرے پہنچو اپنی کھیتی پر۔ “ غَدَاۃٌج غُدُوٌّ : صبح سویرے کا وقت۔ { الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ }(الکہف :28) ” وہ لوگ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح کو اور شام کو۔ “{ یُسَبِّحُ لَـہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ۔ } (النور) ” وہ لوگ تسبیح کرتے ہیں اس کی اس میں صبحوں اور شاموں کو۔ “ غَـدٌ : آنے والی صبح یا دن (1) آنے والا کل (2) آنے والا قیامت کا دن۔ { وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ۔ اِلاَّ اَنْ یَّشَائَ اللّٰہُز } (الکہف) ” تم ہرگز مت کہنا کسی چیز کے لیے کہ میں کرنے والا ہوں اسے کل ‘ سوائے اس کے کہ اگر چاہا اللہ نے۔ “{ وَلْـتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج } (الحشر :18) ” اور چاہیے کہ دیکھے ہر جان اس کو جو اس نے آگے بھیجا قیامت کے دن کے لیے۔ “ غَدِیَ (س) غَدًا و غَدَائً : صبح کا ناشتہ کرنا یا دوپہر کا کھانا کھانا۔ غَدَائٌ (اسم ذات) : صبح کا ناشتہ یا دوپہر کا کھانا ۔ { قَالَ لِفَتٰـٹہُ اٰتِنَا غَدَائَ نَاز } (الکہف :62) ” انہوں نے کہا اپنے خادم سے تو دے ہم کو ہمارا ناشتہ۔ “ ھـ م م ھَمَّ (ن) ھَمًّا : پختہ ارادہ کرنا ‘ ہمت کرنا۔ (آیت زیر مطالعہ) اَھَمَّ (افعال) اِھْمَامًا : بےچین کرنا۔ { وَطَائِفَۃٌ قَدْ اَھَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ } (آل عمران :154) ” اور ایک جماعت ہے ‘ بےچین کیا ہے جن کو ان کی جانوں نے۔ “ ش ل فَشِلَ (س) فَشَلًا : بزدلی دکھانا ‘ ہمت ہارنا۔ و ک ل وَکَلَ (ض) وَکْلًا : اپنا کام کسی کے سپرد کرنا ‘ سونپنا۔ وَکِیْلٌ (فَعِیْلٌ کا وزن ہے اسم المفعول کے معنی میں) : سپرد کیا ہوا ‘ سونپا ہوا یعنی نگہبان ‘ کارساز۔ { وَمَا اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِوَکِیْلٍ ۔ } (الانعام) ” اور آپ ﷺ ان کے نگہبان نہیں ہیں۔ “{ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ ۔ } (الانعام) ” اور وہ ہر چیز کا کارساز ہے۔ “ وَکَّلَ (تفعیل) تَوْکِیْلًا : کسی کو نگہبان مقرر کرنا۔ { یَتَوَفّٰـٹکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ } (السجدۃ :11) ” موت دیتا ہے تم لوگوں کو موت کا فرشتہ جس کو نگہبان مقرر کیا گیا تمہارا۔ “ تَوَکَّلَ (تفعل) تَوَکُّلًا : قرآن مجید میں ” عَلٰی “ کے صلے کے ساتھ آیا ہے جس کے معنی ہیں کسی پر بھروسہ کرنا۔{ اِنِّیْ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ } (ھود :56) ” بیشک میں بھروسہ کرتا ہوں اللہ پر۔ “ مُتَوَکِّلٌ (اسم فاعل) : بھروسہ کرنے والا ۔ { اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ۔ } (آل عمران) ” بیشک اللہ پسند کرتا ہے بھروسہ کرنے والوں کو۔ “ ترکیب : ” غَدَوْتَ “ اور ” تُبَوِّئُ “ کا فاعل ان میں ” تَ “ اور ” اَنْتَ “ کی ضمائر ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے لیے ہیں۔ ” تُبَوِّئُ “ سے پہلے ” وَاِذْ “ محذوف ہے اور اس کا مفعولِ اوّل ” اَلْمُؤْمِنِیْنَ “ ہے اور ” مَقَاعِدَ “ مفعولِ ثانی ہے۔ ” اَنْ “ کی وجہ سے ” تَفْشَلَانِ “ کا نون گرا ہوا ہے۔ نوٹ : یہاں سے اب جنگ احد پر تبصرہ شروع ہو رہا ہے۔ اور یہاں جن دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے وہ قبیلۂ خزرج کے بنوسلمہ اور قبیلہ ٔ اوس کے بنوحارثہ ہیں۔ منافقوں کی شرارت کی وجہ سے ان میں کچھ کم ہمتی پیدا ہوئی تھی لیکن پھر وہ سنبھل گئے۔ (تدبر قرآن)
Top